وہ میرا تھا مگر ... قسط 5
#وہ_میرا_تھا_مگر
سیما شاہد رائٹر
قسط 6
بڑے کمرے میں بیٹھک جمی ہوئی تھی شاہ بی بی زاہدہ تائی اکرم بھائی سب ہی شہریار کے ساتھ بیٹھے اس کا حال احوال پوچھ رہے تھے تبھی شاہ بی بی نے اس کے چہرے پر جمی تھکن کو غور سے دیکھا
" شاہو !! چند گھنٹے آرام کرلو پھر رات کے کھانے پر ملتے ہیں ۔۔۔" شاہ بی بی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
"میں ٹھیک ہوں شاہ بی بی !! آپ بیٹھیں اتنے عرصے بعد ملے ہیں دل ہی نہیں کررہا کہ میں آپ کو چھوڑ کر اپنے کمرے میں جاؤں ۔۔۔" شہریار نے بڑی عقیدت سے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا
" شاہو بیٹا !! شاہ بی بی ٹھیک کہہ رہی ہیں تھوڑا آرام کر لو آؤ تمہیں کمرہ دکھا دوں سویرا بیٹی نے تمہارا کمرہ خود تیار کروایا ہے ۔۔۔" زاہدہ نے پیار سے کہا
" شاہ بی بی !! چلیں آپ کو تو کمرے تک چھوڑ دوں اور اماں مجھے میرے کمرے کا راستہ پتا ہے گھر سے دور ضرور گیا تھا لیکن کچھ بھولا نہیں ہوں میں۔۔۔ " وہ سیدھا کھڑا ہوا اور شاہ بی بی کا ہاتھ تھام کر ان کے کمرے کی جانب بڑھا
شاہ بی بی کا کمرہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ویسا ہی تھا وہ ایک آسودہ سی سانس بھرتے ہوئے ان کے نماز کے تخت پر لیٹ گیا شاہ بی بی نے پیار سے اسے دیکھا اور اس کے پاس بیٹھ کر اس کے سر میں پیار سے ہاتھ پھیرنے لگیں انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت کا پہیہ کئی سال پیچھے گھوم گیا ہے جب شہریار روز ان کے پاس ایسے ہی لیٹ کر لاڈ اٹھواتا تھا ۔
اتنے لمبے سفر کے بعد اپنی ماں جیسی دادی کے پاس لیٹ کر وہ نیند کی پرسکون وادی میں اتر گیا تھا شاہ بی بی نے اس کے اوپر چادر ڈالی اور کمرے میں پردے گرا کر لائٹ بند کرنے کے بعد خود تسبیح لیکر اپنے بیڈ پر بیٹھ گئیں ۔۔
____________________
سویرا کمرے سے باہر نکل کر پانی پینے کچن میں آئی تو اندر سے آتی آوازیں سن کر ٹھٹک سی گئی خاموشی سے دروازے سے اندر جھانکا تو کچن میں ایک گہما گہمی مچی ہوئی تھی یہاں تک کے پھپھو بھی اپنے جوڑوں کا درد بھلائے ملازمین کو ہدایات دے رہی تھی وہ گومگو کی کیفیت میں کھڑی تھی جب فرزانہ پھوپھو کی اس پر نگاہ پڑی
نیلے لباس میں اس کی سفید رنگت جگمگا رہی تھی لمبے بالوں کی چوٹی بنائے گلابی رخساروں پر خفت سے جھکی سیاہ لرزتی پلکیں فرزانہ کا بی پی ہائی کر گئیں
" تم یہاں کھڑی کیا کررہی ہو ؟؟ " وہ ناقدانہ انداز سے اس کے نکھرے نکھرے سراپے پر نظر ڈالتے ہیں بولیں
" وہ وہ پھپھو ۔۔۔"
" وہ کیا اور یہ اتنی تیاری کس خوشی میں ؟ عید ہے کیا آج ؟ ۔۔۔" انہوں نے لتاڑا
" پھپھو !! میں تو بس پانی پینے آئی تھی ۔۔" وہ ان کی غصیلی نظروں سے گھبرا اٹھی
" فوراً نکلو یہاں سے میں نہیں چاہتی تمہاری منحوسیت کا سایہ بھی شیرو پر پڑے اور خیال رکھنا جب تک شیرو ادھر ہے تم اس کے سامنے مت آنا !! میرے بھائی کو تو کھا ہی چکی ہو ۔۔" وہ پھٹ پڑیں
" پھپھو کیوں اس معصوم کو ڈانٹ رہی ہیں ؟؟ اور سویرا ۔۔۔" رخسار نے اندر آتے ہوئے پہلے فرزانہ پھوپھو پھر سویرا کو مخاطب کیا
" سویرا پھپھو صحیح کہہ رہی ہیں کچھ دن میں تمہاری رخصتی ہے اس لئیے ابھی شاہو سے پردہ ہی کرو تو اچھا ہے ایسا نا ہو وہ تمہاری یہ پیاری من موہنی سی صورت دیکھ کر کل کی ہوتی رخصتی آج کروا لے ۔۔ " رخسار نے اسے پیار سے چھیڑا
"رخسار !! یہ کیا بدتمیزی ہے ؟؟ تمہیں بات کرنے کی تمیز آخر کب آئے گی اور تم ؟؟ تم چلو نکلو یہاں سے دفع ہو جاؤ ۔۔" انہوں نے رخسار کو ٹوکتے ہوئے حقارت سے سویرا کو باہر جانے کا اشارہ کیا
سویرا کی آنکھوں میں نمی امنڈ آئی وہ دھیرے سے رخسار کو ہٹاتی ہوئی پیچھے ہٹ گئی رخسار نے تاسف سے فرزانہ پھوپھو اور سویرا کو دیکھا پھر اندر آکر گلاس میں ٹھنڈا پانی نکالا
" دیکھو رخسار !! تم کچھ عقل سے کام لو شہریار وجاہت ذہانت اور مینٹل لیول میں اس اس سویرا سے کئی گنا زیادہ ہے یہ دوٹکے کی لڑکی کا اس سے موازنہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اس لئیے تم اس منحوس سویرا کو میرے شاہو کے سر پر تھوپنے کی کوشش مت کرو ۔۔" وہ نخوت سے بولیں
" تھوپنے والی کیا بات ہے ؟ یہ دونوں تو پہلے سے ہی نکاح جیسے مقدس رشتے میں بندھے ہوئے ہیں !! پھپھو ہماری سویرا بھی لاکھوں میں ایک ہے اور دیکھنا شاہو اس کے ساتھ بہت خوش رہیگا ۔۔"رخسار رسان سے سمجھاتے ہوئے بولیں
" ارے وہ تو میرے شاہو کے جوتے کے برابر بھی نہیں ہے میرا شاہو جیسا سارے خاندان میں ایک بھی ڈھونڈ کر دکھاؤ تو میں جانوں ، ایسا جوان کامیاب اخلاق والا بچہ ہے ۔۔" فرزانہ تڑخ کر بولیں
رخسار نے خاموشی سے پانی کا گلاس اٹھایا اور باہر نکل گئی
سامنے ہی سویرا چپ چاپ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی ہوئی تھی وہ دھیرے سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئیں اور پانی کا گلاس اس کی سمت بڑھایا جسے سویرا نے چپ چاپ تھام لیا
" سویرا !! تم پھپھو کی باتوں کو دل پر مت لینا وہ تو بس ایسے ہی کہتی رہتی ہیں "
" آپی !! " وہ سیدھی ہوئی
" آپی مجھے کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے شاید میری قسمت ہی خراب ہے پھپھو بھی ٹھیک ہی تو کہتی ہیں میں ہو منحوس ۔۔"
" سویرا میری بہن بے شک تمہارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے مگر یہ بھی تو دیکھو کہ شاید شاہو اور تمہارا ایک ہونا قسمت میں لکھا تھا اور قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے میں مانتی ہوں چاچو کے انتقال کے بعد تم شہریار کی ذمہ داری تھی اور وہ تمہیں چھوڑ کر چلا گیا لیکن تم دیکھنا اب سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔"
" آپی !! میں نے کہا نا مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے میں ایسے ہی ٹھیک ہوں آپ بس کسی بھی طرح یہ شادی کینسل کروا دیں ۔۔"
" اگر کوئی شکایت نہیں ہے تو پھر اپنی زندگی کو ازسرنو شروع کرنے کی تیاری کرو یاد رکھو زندگی کو گزارنے کے لیے سر کے سائیں کا ہونا بہت ضروری ہے !! خیر تمہیں شاہ بی بی نے بلایا تھا تم چلو میں بھی چائے لیکر آتی ہوں ۔۔"
_________________
شاہ بی بی تسبیح پڑھ رہی تھیں جب اجازت لیکر سویرا اندر داخل ہوئی
" اتنا اندھیرا شاہ بی بی !! لائٹ جلا دوں ؟؟ " وہ سوئچ بورڈ کی طرف بڑھی
" نہیں بیٹی تم لائٹ چھوڑو اور ادھر میرے پاس آکر بیٹھو ۔۔۔" انہوں نے اپنے پاس جگہ بنائی
" جی شاہ بی بی ۔۔۔" وہ سیدھی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی
" شام سے شاہو آیا ہوا ہے اور تم اس سے ملنے تک نہیں آئی ؟؟"
" شاہ بی بی وہ میں !! " اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے
" دیکھو سویرا زندگی سے اپنا حق اور اپنی محبت آگے بڑھ کر وصول کرنا سیکھو !! میں چاہتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں خوشیوں کی مٹھاس ہی مٹھاس ہو تم اپنی زندگی ایسے جیو کے سب کو تم پر رشک آئے اور بیٹا شاہو اتنا برا نہیں ہے دیکھنا وہ تمہیں دنیا کی خوش نصیب عورتوں میں سے ایک بنا دیگا بس کچھ وقت لگے گا اور تمہیں صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا ۔۔۔" انہوں نے رسان سے سمجھاتے ہوئ
وہ پتا نہیں کتنے عرصے بعد اتنی گہری پرسکون نیند سویا تھا جب اس کی آنکھ کھلی ۔۔۔۔
_____________
شاہ بی بی کسی سے باتیں کر رہی تھیں
" شاہ بی بی !! میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں ڈاکٹر بن کر اپنے بابا کا خواب پورا کرنا چاہتی ہوں آپ پلیز یہ شادی کینسل کروا دیں میں ساری زندگی آپ کا یہ احسان نہیں بھولو نگی ۔۔۔"
دھیمے سروں میں ایک شفاف آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی اس نے اپنے چہرے سے چادر ہٹائی تو کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا
" ارے شاہو بیٹا اتنی جلدی اٹھ گئے !! " شاہ بی بی کی نظر اس پر پڑی
سویرا کا چہرہ شہریار کا نام سن کر فق پڑ گیا تھا
" یہ یہ ادھر کیا کررہے ہیں پتا نہیں مجھے دیکھ کر کتنا چلائیں کیسا بی ہیو کریں مجھے یہاں سے چلا جانا چاہیے ۔۔"
وہ ہاتھ مسلتے ہوئے اٹھ کر جانے ہی لگی تھی کہ اسی وقت رخسار نے کمرے میں داخل ہو کر لائٹ جلائی پورا کمرہ جگمگا اٹھا شہریار کی آنکھیں ایک لمحے کو چندھیا سی گئی تھیں اس نے آنکھ مسلی اور کھڑا ہو گیا سامنے ہی نیلے لباس میں ایک بے انتہا خوبصورت پرکشش لڑکی کھڑی اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی اتنا بے داغ حسن دیکھ کر وہ ایک لمحے کو ٹھٹک گیا تھا تبھی اس کے کانوں سے شاہ ہی بی کی آواز ٹکرائی
" شاہو !! سویرا سے مل لو ۔۔۔!! سویرا بیٹی سلام کرو اپنے سر کے سائیں کو !! " شاہ بی بی نے دونوں کو باری باری مخاطب کیا
شہریار نے ایک اچٹتی سی نظر شاہ بی بی کے پاس کھڑی اسے سلام کرتی سویرا پر ڈالی ۔۔
" شاہ بی بی میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں ڈنر پر ملتے ہیں ۔۔" وہ سویرا کو اگنور کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا
رخسار نے بڑے افسوس سے شرمندہ کھڑی سویرا کو دیکھا اور خود بھی الٹے قدموں شہریار کے پیچھے نکل گئیں
وہ ابھی اپنے کمرے میں آیا ہی تھا کہ تن فن کرتی رخسار اندر داخل ہوئیں
" یہ کیا بدتمیزی ہے شاہو ؟؟ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو "
" میں نے کیا کیا ہے ؟؟ " اس نے الٹا سوال کیا
" تم سویرا کو سلام کا جواب دئیے بغیر اس طرح اگنور کر کے کیسے آگئے ؟؟ "
" آپی پلیز !! میں پاکستان آگیا ہوں کیا یہ کافی نہیں ہے ؟؟ "
"شہریار !! وہ اتنی پیاری ہے تم ایک نظر اسے دیکھ تو لیتے !! "
" آپی پلیز !! مجھے اس کے حسن سے کوئی لینا دینا نہیں ہے آپ کھانا لگوائیں میں فریش ہو کر آتا ہوں ۔۔"
رخسار نے تاسف سے اسے دیکھا اور باہر نکل گئیں ان کے جاتے ہی شہریار نے اپنا فون نکالا آن کیا تو عروہ کی لاتعداد مس کالز آئی ہوئی تھی
" ایک تو یہ لڑکی بھی !! " اس نے مسکراتے ہوئے عروہ کے میسجز پڑھے
" شیری آئی مس یو !!!
شیری تم پاکستان پہنچ گئے ؟؟
شیری مجھے نیند نہیں آ رہی
شیری تم فون کیوں نہیں اٹھا رہے ؟؟ "
وہ آرام سے اپنے بیڈ پر بیٹھ کر عروہ کو فون ملانے لگا لیکن وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی
شہریار کیلیئے عروہ کا فون نا اٹھانا خاصا پریشان کن تھا وہ اسے دوبارہ فون ملانے لگا تو دوسری جانب مسلسل بیل ہونے پر بھی جب عروہ نے فون نہیں اٹھایا تو وہ اضطرابی کیفیت میں گھر گیا اسے عروہ کی فکر ہو رہی تھی ایک تو وہ اسے ساتھ نہیں لایا تھا اس پر عروہ جو ایک گھنٹہ بھی اس سے بات کئیے بغیر نہیں رہتی تھی حالانکہ کے شہریار نے کتنی بار اسے گھڑی گھڑی فون کرنے سے ٹوکا تھا لیکن وہ نہ جانے کس مٹی کی بنی ہوئی تھی کہ دن میں کئی بار بلا جواز اسے فون کرتی تھی جس سے وہ خاصا تنگ تھا اور اب وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی ۔۔۔
اس نے تنگ آکر اسے میسج لکھا
" عروہ کہاں ہو تم فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہو ۔۔۔ فون اٹھاؤ "
____________
سنہری بالوں کی پونی بنائے پنک ٹاپ اور لانگ اسکرٹ کے اوپر کوٹ پہننے وہ لندن برج کے پاس کھڑی تھی شہریار کو گئے ابھی صرف چودہ گھنٹے ہی ہوئے تھے وہ انگلیوں پر حساب لگانے لگی لیکن یہ چودہ گھنٹے اسے چودہ صدیوں کے برابر لگ رہے تھے ذہن وسوسوں میں گھرا ہوا تھا عروہ نے جیب سے سیل فون نکال کر ایک بار پھر شہریار کا نمبر ڈائل کیا ۔
کچھ دیر بعد جھنجھلا کر فون واپس جیب میں ڈالا ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ وقفہ وقفہ سے بار بار اسے فون کر رہی تھی میسجز کررہی تھی اور شہریار اس کا فون اٹینڈ نہیں کررہا تھا شاید اس کا موبائل ہی آف تھا جس پر عروہ کو تشویش ہونے کے ساتھ ساتھ شدید غصہ بھی آرہا تھا وہ جب سے شہریار گیا تھا بےچین سی تھی رات بھر سوئی نہیں تھی
" ڈیم اٹ !! تم نے فون کیوں بند کیا ہوا ہے ؟؟ میری ذات کو اذیت دیکر تم ادھر آرام سے اپنے سو کالڈ گھر والوں کے ساتھ بزی ہو ۔۔۔" وہ بڑبڑائی
ابھی وہ کھڑی اپنا خون ہی جلا رہی تھی کہ اس کا فون بج اٹھا اس نے فون نکال کر چیک کیا
" شہریار کالنگ " لکھا آرہا تھا ایک گہری سانس بھر کر اس نے فون کو دیکھا
" نہیں شہریار !! اب عروہ اتنی بھی ارزاں نہیں ہے کہ تم اسے جب جی چاہے اگنور کرو اور جب جی چاہے بات کرو ۔۔۔" اس نے غصہ سے فون بند کرکے جیب میں ڈالا اور پارکنگ کی طرف بڑھ گئی
فون وقفہ وقفہ سے بج رہا تھا جس سے عروہ کے دل کو تسکین مل رہی تھی لیکن اس نے سوچ لیا تھا
شہریار نے دو تین بار مزید عروہ کا نمبر ڈائل کیا لیکن جواب موصول نا ہونے پر تنگ آکر اس نے فون بیڈ پر اچھالا ہی تھا کہ دروازہ ناک ہوا
زاہدہ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوئیں
" اماں آپ !!! مجھے بلا لیتی ۔۔۔" وہ انہیں دیکھ کر حیران ہوا
" شہریار میرے شاہو !! انہوں نے اسے اپنے ناتواں بازوؤں میں بھرا
" کتنے سال بیت گئے کب سے ترس رہی تھی اپنی جان اپنے بیٹے کو سینے سے لگانے کے لیے پیار کرنے کیلئے ۔۔" وہ نم آنکھوں سے اس کا ماتھا چوم رہی تھیں
" اماں !! میں نے بھی آپ کو بہت مس کیا لیکن مجھے آج بھی اس بات کا افسوس ہے کہ ایک لڑکی کی خاطر آپ نے اپنے بیٹے کا ساتھ نہیں دیا ۔۔
" شاہو وہ لڑکی بھی کوئی غیر تو نہیں تھی !! میرے ہاتھوں کی پلی بڑھی تھی اور تمہارے بابا سائیں بھی تمہاری غیر موجودگی سے ڈھے گئے ہیں تمہاری جدائی نے آج انہیں ہسپتال پہنچا دیا ہے ۔۔۔"
" اماں ! آپ فکر مت کریں کل شام تک بابا سائیں گھر آرہے ہیں میں مان تو رہا ہوں آپ لوگوں کی بات اب سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔"
" تو بیٹا کیا واقعی تم سویرا کو دل سے بیوی تسلیم کرو گے ؟؟ "
" اماں !! اس رشتے میں دل تو ہے ہی نہیں مگر یہ بات آپ لوگ سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں اس لیے پلیز مجھ سے ایسے سوال مت کریں جن کا جواب میرے پاس نہیں ہے ۔۔"
" کیا باتیں ہو رہی ہیں ماں بیٹے میں ؟؟ اور اماں آپ شاہو کو کھانے کے لیے بلانے آئیں تھی اب جلدی چلیں سب انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔" رخسار نے دروازے کے اندر سے جھانک کر کہا
" چلو بیٹا !! کھانے کی میز پر سب کو انتظار کروانا اچھا نہیں لگتا ۔۔" زاہدہ کھڑے ہوتے ہوئے بولیں
بڑی آبنوسی میز پر طرح طرح کے لوازمات سجے ہوئے تھے اس وقت گھر کے سب ہی افراد میز پر موجود تھے شہریار کے آتے ہی شاہ بی بی نے کھانا شروع کرنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ رخسار سے مخاطب ہوئیں
" رخسار !! سویرا سے کہو میز پر آئے اب کچن کی جان چھوڑ دے ۔۔"
" جی شاہ بی بی ۔۔۔" رخسار تابعداری سے سر ہلاتی ہوئی کھڑی ہوئی
" رک جاؤ رخسار !! اور شاہ بی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے وہ منحوس سویرا کبھی آئی ہے میز پر جو آپ اسے منحوسیت پھیلانے کے لیے آج بلا رہی ہیں ؟؟ سن لیں اگر وہ ادھر آئی تو میں یہاں نہیں بیٹھوں گی " فرزانہ کاٹ دار لہجہ میں بولیں
شہریار حیرانی سے فرزانہ پھوپھو کا تحقیر آمیز رویہ دیکھ رہا تھا ۔شاہ بی بی نے ایک گہری نظر شہریار اور فرزانہ پر ڈالی اور پھر سب کو کھانا شروع کا اشارہ کیا ۔۔
"زاہدہ شہریار فارغ ہو کر میرے کمرے میں آؤ ۔۔" وہ جلد ہی پلیٹ پرے کرتے ہوئے اٹھ گئی تھی
شہریار نے رخسار کی طرف دیکھا تو وہ ناسمجھی سے کندھے اچکا کر رہ گئی
__________________________
شاہ بی بی کمرے میں تسبیح پڑھ رہی تھی جب اجازت لیکر زاہدہ اور شہریار اندر داخل ہوئے
" شاہ بی بی آپ نے بلایا تھا ؟؟ "
" آؤ بیٹھو !! " انہوں نے اشارہ کیا
شہریار ان کے نماز کے تخت پر بیٹھ گیا اور زاہدہ سامنے رکھے صوفہ پر بیٹھ گئی
" شہریار !! تمہاری واپسی کب تک ہے ؟؟ " شاہ بی بی نے سنجیدگی سے پوچھا
" شاہ بی بی !! بچہ ابھی آج ہی تو آیا ہے اور آپ واپسی کا پوچھ رہی ہیں ۔۔" زاہدہ نے شکوہ کیا
" شہریار !! کل تمہارے بابا سائیں گھر آ رہے ہیں ٹھیک تین دن بعد جمعہ کا مبارک دن ہے اسی دن رخصتی رکھ لیتے ہیں ۔۔ " شاہ بی بی سنجیدگی سے بولیں
" آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نا کہ اگر ایک سال تک بھی ہماری انڈرسٹینڈنگ نہیں ہو سکی تو پھر آپ مجھے یہ رشتہ توڑنے سے نہیں روکیں گئیں " شہریار بلا کی سنجیدگی سے بولا
" سب یاد ہے بس تم رخصتی کروا کر اپنی نئی زندگی شروع کرو باقی سب اب وقت بتائے گا ۔لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دو تمہاری واپسی کب کی ہے تاکہ سویرا کے ٹکٹ کا انتظام کیا جائے ۔۔ " شاہ بی بی آرام سے بولیں.
جاری ہے
Comments
Post a Comment