وہ میرا تھا مگر ... قسط 4
#وہ_میرا_تھا_مگر
سیما شاہد رائٹر
قسط 4
وہ کانوں پر بلیو ٹوتھ لگائے مسلسل رخسار آپی سے باتوں میں مصروف تھا
" آپی آپ خود کو ایک بار تو میری جگہ رکھ کر سوچیں شادی زندگی کا ایک اہم ترین فیصلہ ہوتا ہے اور میرے سر پر تو آپ سب نے ایک ناپسندیدہ ہستی کو تھونپ دیا ہے ۔۔" وہ انہیں سمجھا رہا تھا
" شیرو کوئی اور راستہ نہیں ہے ؟؟ کیا تم واقعی اسے نہیں اپناؤ گئے ؟؟
"نہیں ...میرے نزدیک اس کا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور آپ بیفکر رہیں میں اسے کسی ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بناؤ گا بس ایک سال ہی کی تو بات ہے کرلونگا برداشت ۔۔۔"
"تم اتنا منفی کیوں سوچ رہے ہوں سویرا کو ایک موقع دیکر تو دیکھو یقین کرو وہ ایک وفا شعار بیوی ثابت ہوگی تمہاری زندگی میں خوشیاں بھر دے گی ۔۔ "
" آپی پلیز مجھے سبز باغ دکھانا بند کریں مجھے کسی وفا شعار ٹائپ بیوی کی ضروت نہیں ہے اس لئیے براہ مہربانی مجھے قائل کرنے کی کوشش مت کریں۔ ۔۔"
" شاہو !! اتنا غرور اچھا نہیں ہوتا دیکھنا ایک دن تمہاری زندگی میں اس کی بہت اہم جگہ بن جائے گی تمہیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے محبت ہو جائیگی پھر میں دیکھوں گی کہ تم کیسے محبت سے منھ موڑو گئے ؟ ڈرو اس وقت سے جب تم سویرا سے محبت کی بھیک مانگو گے ۔۔ "
"سیریسلی آپی !! آپ مجھے بہت انڈر ایسٹیمیٹ کررہی ہیں بہرحال آپ کی اطلاع کے لئیے میں اپنی وائف ٹو بی سلیکٹ کرچکا ہوں ۔۔۔۔"
ابھی وہ بات کرہی رہا تھا جب ڈرائیور نے گاڑی ائیرپورٹ اینٹرینس پر روکی ۔۔
" سر !! ائیر پورٹ آگیا ہے ۔۔۔" باوردی ڈرائیور نے اتر کر دروازہ کھولا
اس نے فون بند کیا اور بڑے اطمینان سے کاندھے پر ٹریول بیگ لئیے ہاتھ میں بریف کیس لیکر نیچے اترا سن گلاسز آنکھوں پر لگائے اور بڑے بڑے قدم اٹھاتا اندر داخل ہو گیا
ہیتھرو دنیا کا ایک مصروف ترین ائیر پورٹ جہاں منٹ منٹ پر فلائٹس لینڈ اور ٹیک آف کرتی ہیں یہاں ہمہ وقت ایک گہما گہمی سی نظر آتی ہے ہر کوئی اپنے آپ میں مگن تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے
وہ تمام سیکیورٹی مراحل سے گزرنے کے بعد اب آرام سے اپنا کوٹ اتار کر آستینیں فولڈ کرکے ویٹنگ لاونج میں بیٹھ کر اپنے بریف کیس سے لیب ٹاپ نکال کر ای میلز کرنے میں مصروف تھا جب اسے اپنے شانے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا ۔۔۔
______________________________
عروہ انتہائی غصہ میں گھر واپس آ گئی تھی شہریار کی سیکرٹری سے اس کا ٹریول پروگرام فلائٹ ڈیٹیل لیکر اپنی آن لائن بکنگ کروا چکی تھی اور اپنے ڈیڈ سے ضد کرکے اب ائیر پورٹ جانے کیلئے تیار کھڑی تھی اس کی مام نے اسے آخری لمحے تک سمجھانے کی کوشش کی پر وہ نہیں مانی ۔۔
" عروہ ڈارلنگ ایک بار پھر سوچ لو تم پاکستان میں کیسے رہو گی ؟؟ دو دن بھی نہیں ٹک سکو گئی ادھر ۔۔۔"
" مام پلیز !! میں کسی بھی قیمت پر شیری کو ادھر اکیلا نہیں جانے دے سکتی آپ تو مجھے سمجھیں !! " اس نے سنجیدگی سے کہا
" تم آج تک پاکستان نہیں گئی ہو ادھر کا ماحول بہت الگ ہے آخر تم ادھر کیسے رہو گی ذرا سی دھول تمہیں برداشت نہیں ہوتی اور ادھر تو ۔۔۔۔"
" مام پلیز !! " عروہ نے انہیں ٹوکا
" میں کوئی ادھر رہنے نہیں جارہی بس شیری کے پیرنٹس سے مل کر اسے اپنے ساتھ لیکر واپس لے آؤ نگی ۔۔۔" عروہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا
وہ اپنی مام کے گال چومتی ڈیڈ کو بائے کہتی باہر نکل گئی جہاں اس کے ڈیڈ کا ڈرائیور اسے ائیر پورٹ لے جانے کیلئے تیار کھڑا تھا
ائیرپورٹ پہنچ کر وہ تمام سیکیورٹی مراحل سے گزرنے کے بعد اب ویٹنگ لاونج میں شہریار کو ڈھونڈ رہی تھی جب اس کی نظر شہریار پر پڑی جو سامنے ہی صوفہ پر بیٹھا لیب ٹاپ پر مصروف تھا وہ اسے دیکھ کر ٹھٹک سی گئی جیل سے سیٹ کئیے ہوئے گھنے بال وجیہہ چہرے پر سنجیدگی لئیے وہ دور سے بھی لاکھوں میں ایک نظر آرہا تھا
اس نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر کر درست کیا پرس میں سے گلوس نکال کر خود کو فریش اپ کرنے کے بعد وہ شہریار کی جانب بڑھی قریب پہنچ کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ تیزی سے پلٹا
" عروہ !! تم ۔۔۔"شہریار کی آنکھوں میں ناگواری امڈ آئی
" کیوں کیا ہوا ؟؟ مجھے دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی ۔۔" عروہ اس کے سامنے آکر بولی
" عروہ سیریسلی اٹس ٹو مچ !! میں کام سے جا رہا ہوں فن ٹرپ پر نہیں جو تم میرے ساتھ چلو ہر بات کی حد ہوتی ہے ۔۔۔" وہ غصہ دباتے ہوئے بولا
" شہریار !! تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں تم سے کتنا پیار کرتی ہوں مجھے ڈر لگتا ہے سنا ہے دیسی پیرنٹس بہت خطرناک ہوتے ہیں اگر تمہارے بابا نے تمہاری زبردستی شادی کردی تو ؟؟ میں تو مر جاؤنگی نا ؟؟ " اس کا لہجہ بھرا گیا
" سو اٹ مینس یو ڈونٹ ٹرسٹ می ؟؟ " وہ سرد لہجے میں بولا
" ایسا مت کہو ٹرسٹ کرتی ہوں !! بہت ٹرسٹ کرتی ہوں جبھی تو کسی بھی رشتے کے بغیر تمہاری راہ پر چل رہی ہوں ۔۔۔" اس نے شہریار کے کندھے پر سر رکھا
جینز شرٹ میں ملبوس سنہرے بالوں کو پشت پر بکھرائے وہ لاؤنچ میں بیٹھے لوگوں کی توجہ کھینچ رہی تھی شہریار کے چہرے پر ناگواری کی رمق سی چمکی
" کیا تمہیں میری پریشانی کا بھی کچھ اندازہ ہے مجھے بزنس میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے استنبول میں ، اس کے بعد فوراً پاکستان روانگی ہے مجھے اپنے بابا کو ہسپتال میں دیکھنا ہے ان کو علاج کیلئے ساتھ لانے کی کوشش کرنی ہے ایک تو ادھر پہلے ہی سارے لوگ بہت کنزرویٹو ہیں اوپر سے بغیر شادی کے کسی لڑکی کا اس طرح میرے ساتھ آنا تو ؟؟ تم میرے لئے صرف اور پرابلمز کھڑی کرو گی۔۔" شہریار اسے خود سے الگ کرتے ہوئے بولا
"سچ کہو تمہیں میرا اپنے ساتھ آنا برا لگ رہا ہے نہ یہی بات ہے نا ؟؟ " عروہ کی سبز آنکھوں میں نمی امنڈ آئی
"تم اچھی طرح جانتی ہو ایسی بات نہیں ہے میری تم سے کمٹمنٹ ہے اور میں کمٹمنٹ نبھانے والا بندہ ہوں چلو اپنا سامان سمیٹو ہو بورڈنگ اناؤنس ہو رہی ہے۔۔۔" وہ لیب ٹاپ بند کر کے بیگ میں ڈالتے ہوئے اپنا کوٹ اٹھا کر سیدھا کھڑا ہو گیا
__________________
" شاہ بی بی !! اگر وہ ایک سال بعد بھی نا راضی ہوا تو ۔۔۔" زاہدہ کے لہجے میں اندیشے تھے
" جی شاہ بی بی آپ ایک بار پھر سوچ لیں ایسا نا ہو سال بعد اس نے اگر سویرا کو خدا ناخواستہ چھوڑ دیا تو ۔۔۔" رخسار بھی فکر مند تھیں
" ایسا کچھ نہیں ہوگا یہ بات خاندان کے شملہ کو اونچا رکھنے کیلئے ضروری تھی ویسے بھی شاہو کی رگوں میں ہمارا خاندانی خون دوڑ رہا ہے جب ایک بار شادی ہو جائے گی تو وہ پھر کبھی بھی برداشت نہیں کریگا کہ اس سے منسلک عورت اس کی عزت کو کوئی ایرا غیرا دیکھے دوسری شادی بیاہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے اس کی غیرت اسے کبھی بھی ایسا فیصلہ لینے نہیں دیگی ۔۔ " شاہ بی بی کے لہجہ میں مضبوطی تھی مان تھا
" لیکن سویرا کے وجود کو تو اس نے نکاح کے بعد بھی تسلیم نہیں کیا تھا وہ تو اسے پہلے دن سے چھوڑنے کی رٹ لگائے بیٹھا ہے آپ دیکھ لیں شاہ بی بی کہیں پھر ہماری طرف سے زیادتی نا ہو جائے ۔۔۔" زاہدہ سنجیدگی سے بولیں
" اسی لئیے تو ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے جب تک وہ سویرا کو دیکھے گا نہیں جانے گا نہیں تو فیصلہ کیسے کریگا ؟؟ ایک سال تو کچھ نہیں ہوتا بس ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے محبت کو وحی بن کر دل میں اترنے کے لئے!! اور مجھے پورا یقین ہے شاہو کے دل میں ایک دن سویرا راج کریگی " شاہ بی بی نے رسان سے سمجھاتے کہا
سویرا جو سب کو رات کے کھانے کیلئے بلانے آئی تھی اندر سے آتی آوازوں کو سن کر اپنی جگہ منجمد سی ہوگئ یہ قسمت اس کے ساتھ کیسا کھیل کھیل رہی تھی اس کی سگی دادی اسے ایک سال کیلئے داؤ پر لگا رہی تھیں
وہ چپ چاپ پلٹ گئی اور مائی کو اندر کھانے کے لئیے سب کو بلانے کے لیے بھیج کر خود میز لگانے لگی
فرزانہ پھوپھو ہسپتال میں بابا سائیں کے پاس تھیں باقی سب افراد رات کے کھانے کیلئے میز پر موجود تھے سویرا بھی چپ چاپ سر جھکائے بیدلی سے پلیٹ میں چمچہ ہلا رہی تھی جب شاہ بی بی کی آواز گونجی
" ٹھیک دو روز بعد شاہو واپس آرہا ہے اس کے آتے ہی ہم سویرا کی رخصتی کردینگے !! زاہدہ تم مہمانوں کی لسٹ بنا لو اور رخسار تم شاہو کا کمرہ کھلوا کر درست کروا لو باقی آپ مرد حضرات کل اسپتال چلیں اور سلیم سے مشورہ کر کے تیاری شروع کریں ساتھ ہی ساتھ سویرا کا پاسپورٹ اور ویزا کروائیں ۔۔۔" انہوں نے اعلان کرنے کے ساتھ ہی ساتھ سب میں کام بانٹ دئیے
_______________________________
رات کا وقت تھا سب کھانا کھانے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے زاہدہ تائی اور رخسار آپی شاہ بی بی کے ساتھ ان کے کمرے میں چلی گئی تھی وہ سارے کام سمیٹ کر چپ چاپ چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔
بڑے سے صحن میں آتے ہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس سے ٹکرائے موسم سرد تھا ہلکی ہلکی پھوار برس رہی تھی وہ چپ چاپ صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گئی
اس کے وجود پر اداسی چھائی ہوئی تھی ایک عجیب سی
یاسیت نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا ماں جیسی تائی امی کا بدلتا رویہ اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا خود ساختہ انا اسے بہت تیزی سے ہر رشتے سے دور کر رہی تھی اس کا ذہن شدید قسم کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا سر درد سے پھٹا جا رھا تھا دل بھر آیا تھا کالی سیاہ آنکھیں برس رہی تھیں وہ سب کچھ خود پر سہہ تھی
" کاش بابا آج آپ زندہ ہوتے !! تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا اتنی ذلت !! اللہ میاں مجھے میرے بابا کے پاس بھیج دے ۔۔۔" وہ رو پڑی
ٹھنڈ اس کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی پہ در پہ چھینکیں آنی شروع ہو چکی تھی وہ ہمت کرکے اٹھی اور اندر اپنے کمرے کی جانب بڑھی
کمرے میں داخل ہو کر وہ خود کو سر سے پیر تک لحاف میں پیک کر کے لیٹ گئی تھی مگر سردی کم نہیں ہوئی اس کا پورا وجود سردی سے کانپ رہا تھا ۔۔۔
" سویرا !! اٹھو جلدی سے دودھ پی لو تم نے کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں کھایا آج ۔۔۔" رخسار کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی ہی تھی کہ اس کے لحاف میں پیک وجود کو دیکھ کر قریب آئیں سر سے لحاف اٹھایا تو اس کا تپتا ہوا سرخ چہرہ دیکھ کر چونک گئیں
" سویرا چندا کیا ہوا ؟؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ " انہوں نے پریشانی سے اسے دیکھا
سویرا نے اپنی بھیگی پلکیں اٹھا کر انہیں دیکھا تو وہ اس کی لال سرخ آنکھوں کو دیکھ کر بےحد پریشان ہوگئیں تیزی سے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا
" یا اللہ تمہیں تو بہت تیز بخار ہو رہا ہے !! تم ایک منٹ ویٹ کرو میں دوا لے کر آتی ہوں " وہ اسے اچھی طرح سے لحاف اوڑھاتے ہوئے بولیں
" رخسار آپی رہنے دیں میں بہت ڈھیٹ ہڈی ہوں اتنی آسانی سے نہیں مرنے والی ۔۔" وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولی
" اللہ نا کرے سویرا !! کیسی باتیں کررہی ہو سوچ کر بولا کرو ۔۔۔" انہوں نے اسے سرزنش کی
" بھلا بتاؤ شادی سر پر ہے اور دلہن بی بی بیمار ہو گئی ہیں " وہ بڑبڑاتی ہوئی تیزی سے کچن کی جانب گئی جہاں میڈیکل کیبنیٹ میں بخار کی دوا موجود تھی
___________
صبح کا وقت تھا جب رخسار شاہ بی بی کے کمرے میں وضو کروانے کے لیے آئیں
" سویرا کدھر ہے ؟؟ " انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا
"بی بی جان اسے رات سے بخار ہے میں نے دوا دی تھی ابھی سو رہی ہے ۔۔۔" رخسار ان کے لئیے جائے نماز بچھاتے ہوئے بولیں
" ٹھیک ہے وہ جیسے ہی اٹھے اسے ہمارے پاس بھیج دینا ۔۔۔" انہوں نے نیت باندھنے سے پہلے حکم دیا
رخسار اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی
رخسار کچن میں تیزی سے ملازمہ کی مدد سے سب کا ناشتہ تیار کروا رہی تھیں آج سویرا کی غیر موجودگی کی وجہ سے سب کاموں میں دیر ہو رہی تھی سب کو ناشتہ کمروں میں بھجوا کر وہ سویرا کیلیئے دودھ ڈبل روٹی ٹرے میں رکھ کر کچن سے نکلی ہی تھیں کہ مین دروازے سے فرزانہ پھوپھو اندر داخل ہوئی
"السلام علیکم پھپھو جان !! " رخسار نے جھٹ سے سلام کیا
وہ اشارے سے جواب دیتی ہوئی تنے ہوئے چہرے کے ساتھ شاہ بی بی کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں
"کیا ہوا رمیز !! پھوپھو اتنے غصہ میں کیوں ہیں ؟؟ " رخسار نے پوچھا
" کچھ نہیں بھابھی بس اکرم بھیا نے انہیں رات ہی شہریار بھائی کے آنے کی اطلاع دے دی تھی اماں نے ہسپتال میں بڑی مشکل سے رات کاٹی ہے" رمیز نے رپورٹ دی
" اچھا دیور جی تم جا کر فریش ہو میں ناشتہ بھجواتی ہوں ۔۔۔" رخسار ٹرے لیکر سویرا کے کمرے کی طرف بڑھیں
___________________________
" شاہ بی بی یہ میں کیا سن رہی ہوں آپ شاہو کہ ساتھ اس کرم جلی کو رخصت کر رہی ہیں ؟؟ " وہ چادر اتار کر پرس کو میز پر پٹختے ہوئے بولیں
" نا سلام نا دعا ؟؟ فرزانہ آتے کہ ساتھ ہی سوال ؟؟ یہ مت بھولوں کہ تم ہم سے مخاطب ہو اور ہم کسی کو جواب دہ نہیں !!! " شاہ بی بی سرد لہجے میں بولیں
" معذرت چاہتی ہوں لیکن کیا آپ مجھے بتائیں گی کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟؟ آپ کو پوری دنیا میں بس یہی لڑکی ملی تھی میرے شاہو کے لیے؟؟ کیا سارے گاؤں کی لڑکیاں مر گئی ہیں اپنی برادری میں بھی کوئی لڑکی نہیں ملی جو اس منحوس کو زبردستی میرے بچے کے گلے باندھ رہی ہیں ۔۔۔" فرزانہ پھٹ پڑیں
" شاہو ہمارا بھی بچہ ہے اور یہ کوئی نیا فیصلہ تو نہیں !! نکاح تو ان دونوں کا بہت پہلے ہی ہوچکا ہے اب تو بس رخصتی ہی باقی ہے اور اس میں برائی بھی کیا ہے؟؟ " شاہ بی بی تحمل سے بولیں
"میں کہتی ہوں کیا یہی دنیا سے نرالی منحوس لڑکی میرے بھتیجے کے لئے رہ گئی تھی اپنے باپ کو تو کھا چکی ہے اب دیکھنا یہ میرے شاہو کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے !! میرے خوبرو لائق بھتیجے کیلیئے کیا یہی رہ گئی تھی ؟؟ اور نکاح کا کیا ہے کبھی بھی توڑا جا سکتا ہے میں تو کہتی ہو آپ ابھی بھی وقت ہے اس بے جوڑ رشتے کو ختم کر دیں ۔۔۔"
"فرزانہ بس کرو تمہاری زبان کے آگے تو خندق ہے اب یہ فضول گوئی بند کرو !! میری سویرا تو اتنی خوبصورت نیک دل اور حساس لڑکی ہے جو ڈھونڈنے سے بھی نا ملے ، سب کا خیال رکھنے والی طبیعت کی بھی بہت نیک ہے دیکھنا شادی کے بعد شاہو کو سنبھال لے گی سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔" وہ رسان سے سمجھاتے ہوئے بولیں
" آپ نے شاہو سے پوچھا ؟؟ یا اس بار بھی خود ہی فیصلہ کرلیا ہے ؟؟ " فرزانہ نے پوچھا
" شاہو سے پوچھ کر ہی رخصتی طے کی ہے " شاہ بی بی روکھے لہجے میں بولیں
" سب سے پوچھ لیا ساری باتیں طے کر لی اور مجھے کچھ بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا بس یہی عزت رہ گئی ہے میری کہ اب مجھ سے باتیں چھپائی جاتی ہیں۔۔" وہ روہانسی ہو گئی
" بس فرزانہ بہت ہوگیا جاؤ !! اب میں آرام کروں گی اور شادی میں خوشی خوشی شریک ہو سکتی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ آرام سے اپنے کمرے میں بند ہو کر بیٹھ جاؤ خبردار جو میرے بچوں کی خوشیوں میں کوئی ٹانگ اڑائی ۔۔۔"
________________________________
عروہ یک ٹک اسے دیکھے جارہی تھی
" کم آن عروہ !! دیر ہو رہی ہے ۔۔۔ " وہ جھنجھلا کر بولا
" شیری سچ کہو تم مجھ سے پیار کرتے ہو نا ؟؟ "وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی
" عروہ ہنی !! تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں پیار عشق ان فضولیات پر یقین نہیں رکھتا میرے نزدیک انڈرسٹینڈنگ فرینڈ شپ اہم ہے اور جب ہم شادی کرنے کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو اب اتنی بے اعتباری کیوں ؟؟ "
" شیری میں تمہارے معاملہ میں بہت حساس ہوں پتا نہیں کیوں پر تمہیں کھونے سے ڈرتی ہوں ۔۔" وہ دھیرے سے چلتی ہوئی اس کے نزدیک آئی
" عروہ !! میں اس ٹرپ سے واپس آجاؤں تو تمہاری اس بے اعتباری کا علاج کرتا ہوں ۔۔" اس نے کہا
" بس ایک وعدہ کرو !! " عروہ نے اس کے گلے کے میں ہاتھ ڈالے
" چاہے جیسے بھی حالات ہوں چاہے کچھ بھی ہو جائے پر تم کبھی بھی مجھے نہیں چھوڑوں گئے ہمیشہ میرے رہو گئے ۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی
" لیٹس گو عروہ دیر ہو رہی ہے ۔۔۔" شہریار نے اسے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا
" پہلے وعدہ کرو شیری !! " وہ ضدی لہجے میں بولی
" اوکے پرامس !! بس اب خوش ؟؟ "
" جینٹلمین پرامس ؟؟ " عروہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا
" اوکے بابا جینٹلمین پرامس !! اب چلیں ؟؟ میں فلائٹ مس نہیں کرنا چاہتا ۔۔" وہ زچ ہو کر رہ گیا تھا
" ٹھیک ہے شیری !! یاد رکھنا تم نے مجھے زبان دی ہے !! اب تم جاؤ اور جلد واپس آنا اپنے پیرنٹس کو ہماری شادی کیلئے منا کر آنا ۔۔۔" عروہ اپنا ٹکٹ پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈالتے ہوئے بولی
" تم نہیں آرہی ؟؟ " وہ حیران ہوا
" نہیں میں تمہیں پریشان کرنا نہیں چاہتی اور نا ہی یہ چاہتی ہوں کہ تم مجھے ان سیکیور ٹائپ لڑکی سمجھو ۔۔اب تم جاؤ میں تمہاری واپسی کا انتظار کرونگی ۔۔" وہ اداسی سے بولی
فلائٹ کی بورڈنگ اناؤسمنٹ بار بار ہو رہی تھی وہ اسے گڈ بائے کہتا ہوا تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے اندر چلا گیا.
جاری ہے
Comments
Post a Comment