وہ میرا تھا مگر ... قسط 3
#وہ_میرا_تھا_مگر
سیما شاہد رائٹر
قسط 3
یہ شہر کے ایک بہت ہی جدید ہاسپٹل کا وی وی آئی پی کمرہ تھا جس میں باوقار سے بابا سائیں لیٹے ہوئے تھے ان کے ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی اور چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں چھائی ہوئی تھیں تبھی ہلکے سے کھٹکا ہوا اور دروازہ کھول کر ان کی جان سے عزیز بیگم زاہدہ ان کے پیچھے پیچھے فرزانہ اور رخسار اندر داخل ہوئی ۔
"اسلام علیکم بابا سائیں !! " رخسار نے سلام کیا
"وعلیکم السلام !! بیٹی " وہ اس کے پیچھے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے
"اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ " زاہدہ بیگم نے ان کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے کہا
بابا سائیں نے ایک نظر زاہدہ کی لال سرخ آنکھوں کو بغور دیکھا ۔۔۔
" آپ اپنا خیال نہیں رکھ رہی ہیں!! " وہ ناراض لہجے میں بولے
" بھائی صاحب !! بھابھی تو بس دن رات روتی رہتی ہیں پہلے ہی ایک شیرو کا دکھ کم تھا جو اب آپ بھی اس منحوس لڑکی کی وجہ سے ہسپتال میں ہیں ۔۔۔" فرزانہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا
" پھپھو پلیز ابھی ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ایسی باتیں مت کریں !!! " رخسار نے انہیں ٹوکا
"زاہدہ بیگم !! سویرا کدھر ہے ؟؟ " وہ ساری باتیں اگنور کرتے ہوئے پوچھنے لگے
" وہ !! وہ گھر پر شاہ بی بی اکیلی تھیں اس لئیے ان کے ساتھ رک گئی !!! " زاہدہ بیگم تھرماس سے یخنی نکال کر ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں
" مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی میں ایک ہفتے سے ہسپتال میں ہوں اور آپ اس بچی کو ایک دن بھی مجھ سے ملانے نہیں لائیں !!! " انہوں نے تاسف سے کہا
" بھائی صاحب !! بھابھی سے ناراض مت ہوں میں نے اسے منع کیا تھا ۔۔۔" فرزانہ نے کہا
" کیوں ؟؟ فرزانہ کیوں منع کیا ؟؟ وہ میری بیٹی ہے میرے مرحوم بھائی کی نشانی !! آئندہ اگر کسی نے بھی اسے میرے پاس آنے سے روکا تو !!! " ان کا سانس اکھڑنے لگا
رخسار نے جلدی سے بیل بجا کر نرس کو بلایا جلد ہی نرس اور ڈاکٹر اندر داخل ہوئے
" ریلیکس سر !! "
ڈاکٹر نے انہیں چیک کر کے سکون کا انجکشن دیا اور نرس کو ڈرپ تبدیل کرنے کی ہدایت دینے لگا دیکھتے ہی دیکھتے بابا سائیں غنودگی میں چلے گئے ۔۔۔
" دیکھئیے ان کی حالت ابھی بہتر نہیں ہے شوگر کنٹرول نہیں ہورہی اور بلڈ پریشر بھی نارمل نہیں ہے اس وقت کسی بھی قسم کا ذہنی دباؤ ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کوشش کریں انہیں بالکل بھی اسٹریس نہیں ہو ۔۔۔" اس نے تینوں خواتین کو سمجھایا ۔۔
____________________________
شاہ بی بی کے کمرے سے نکل کر سویرا پہلے کچن میں گئی جہاں صغریٰ کام میں مصروف تھی اسے کھانا پکانے کی ہدایات دے کر وہ ناک کی سیدھ میں چلتی ہوئی اپنے کمرے میں پہنچی اور خاموشی سے بیڈ کے کنارے پر آ کر بیٹھ گئی اور بہت دیر تک اپنی جھولی میں رکھے ہاتھوں کو تکتی رہی بائیں ہاتھ میں ہیرے کی ایک نازک سی انگوٹھی جگمگا رہی تھی جو نکاح کے وقت شہریار نے اسے اپنے بابا سائیں کے کہنے پر مجبوراََ پہنائی تھی اس وقت وہ بچی تھی رویوں کو نہیں سمجھتی تھی لیکن آج وہ ایک سمجھدار دوشیزہ کا روپ دھار چکی تھی اسے اپنے اور شہریار کے رشتے کا احساس تھا شہریار کی بیگانگی کا اس کے وجود سے انکاری ہونے کا اپنے رد ہونے کا بھرپور احساس تھا ۔۔
اس نے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اسے اپنے بابا یاد آرہے تھے !! دل بہت دکھا ہوا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر دل کھول کر رو رہی تھی اپنی قسمت کو اپنے مقدروں کو رو رہی تھی ۔۔۔
" اتنی بےعزتی اور بے توقیری ،اللہ کبھی بھی کسی کو یتیم اور محتاج نا بنانا ۔۔۔" وہ سسک رہی تھی
بابا سائیں کی شفقت، تائی امی کی محبت، رخسار بجو کی بے لوث دوستی نے اسے سنبھال رکھا تھا لیکن اب ناجانے کیوں اسے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب رشتے اسے ایک ایک کرکے چھوڑ جائینگے ۔۔۔
______________________________
سویرا کو آرام کرنے کا کہہ کر وہ سوچ میں ڈوب چکی تھیں جو بھی تھا اب اس مسئلے کو حل کرنا تھا اس سے پہلے نازک رشتوں کی دراڑ بڑھتے بڑھتے ایک بڑے خلا میں تبدیل ہوجاتی بہتر تھا اس دراڑ کو بھر دیا جاتا !!
کافی سوچ بچار کے بعد وہ جاء نماز بچھا کے نفل پڑھنا شروع ہوگئیں ان کے نزدیک ہر مشکل کا حل سوہنے رب کی عبادت نماز پڑھنے میں تھا۔۔۔
نفل عبادت سے فارغ ہو کر وہ پرسکون ہو چکی تھی انہوں نے سرہانے رکھا فون اٹھایا
" زاہدہ !! آج فرزانہ کو ہسپتال میں رات رکنا ہے، اسے بتا دو اور تم اور رخسار بھی سلیم سے ملکر جلد واپس آؤں ۔۔۔" انہوں نے ہدایت دی
فون رکھ کر انہوں نے انٹرکام ملایا
" صغراں !! زاہدہ بیگم اور رخسار جیسے ہی گھر آئیں انہیں میرے کمرے میں بھیجو ۔۔۔" ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ چکی ہیں
_________________________________
عصر کی نماز کے بعد زاہدہ بیگم اور رخسار گھر واپس لوٹیں تو صغراں نے انہیں شاہ بی بی کا پیغام دیا وہ دونوں چادر اتار کر تہہ کرتی ہوئی شاہ بی بی کے کمرے کی جانب بڑھیں
" اسلام علیکم !! " اندر داخل ہوتے ہی سلام کیا
"وعلیکم السلام " انہوں نے سر کے اشارے سے جواب دیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا
" شاہ بی بی آپ نے یاد کیا ؟؟ " زاہدہ تائی بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں
" اب سلیم کیسا ہے اس کی طبیعت کیسی ہے " انہوں نے سنجیدگی سے بیٹے کی طبیعت پوچھی
" ابھی تو ویسے ہی ہیں بڑا ڈاکٹر کہتا ہے شوگر کنٹرول ہوگی تب ہی کچھ کرینگے ۔۔۔
" زاہدہ بیگم !! ہم نے آج بہت سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ لیا ہے ۔۔۔" وہ تسبیح گھماتے ہوئے بولیں
" جی شاہ بی بی !! آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر !! آپ حکم کریں ۔۔۔"زاہدہ بیگم نے ان کے ہاتھ تھامے
" سویرا ہماری پوتی !! ہمارے دل کا ٹکڑا ہے تو دوسری طرف شاہو ہماری جان ہے ہم نے یہ رشتہ بہت سوچ سمجھ کر جوڑا تھا بہو !! اور وہ تو تمہارے اپنے ہاتھوں کی پلی بچی ہے اور میں اب تم سب کے رویوں کو دیکھ رہی ہوں اس لئیے میں نے سوچا ہے کے سویرا کی رخصتی کردی جائے ۔۔۔"
" مگر !!! " زاہدہ بیگم نے کہنا چاہا
" اگر مگر کچھ نہیں !! کیا تمہیں سویرا اپنی بہو کے روپ میں قبول ہے یا نہیں اپنی بات کرو زاہدہ !! " وہ ان کی بات کاٹ کر دو ٹوک لہجے میں بولیں
" شاہ بی بی سویرا میری بیٹی ہے میں تو خود کب سے اسے رخصت کروانا چاہتی ہوں مگر شاہو !! وہ تو مانتا ہی نہیں شاہ بی بی پانچ سال ہونے والے ہیں بات تک نہیں کرتا بتائیں میں کیا کروں ؟ " زاہدہ لاچاری سے بولیں
رخسار بچے یہ میرا فون پکڑ اور شاہو کا نمبر ملا ابھی سب کے سامنے بات ہوگی ۔۔۔" وہ اپنا فون رخسار کی جانب بڑھاتے ہوئے بولیں
رخسار نے ان کے ہاتھ سے فون لیا ایک نظر اپنی پریشان بیٹھی مان کو دیکھا اور پھر فون ملا کر ہینڈ فری کرکے میز پر رکھ دیا ۔۔
بیل جا رہی تھی اور وہ سب دم سادھے فون کو دیکھ رہے تھے ۔۔
___________________________________
شہریار اپنے فون پر شاہ بی بی کا نام جگمگاتا دیکھ کر ایک دم چونک کیا اس نے تیزی سے عروہ کو خود سے جدا کیا اور اسے واپس جانے کا کہتا ہوا فون اٹھا کر کانوں سے لگاتے ہوئے سیدھا باہر نکل آیا ۔۔۔
"شاہ بی بی !! شاہ بی بی یہ آپ ہی ہیں نا !!!!" وہ ابھی تک بےیقینی کا شکار تھا ۔۔۔
گاڑی کے قریب پہنچ کر تیزی سے ڈرائیور کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا
" السلام علیکم ، کتنے سالوں کے بعد آپ نے مجھے یاد کیا ہے مجھے تو لگا آپ مجھے اپنے شاہو کو بھول ہی گئی ہیں !!" نا چاہتے ہوئے بھی وہ شکوہ کرگیا
" وعلیکم اسلام !! راستہ تو تم بھولے بیٹھے ہو !! " ٹہرے ہوئے لہجے میں شاہ بی بی کی آواز ابھری
"آپ سب جانتی تو ہیں ! میں تو آپ کو بابا سائیں کو امی کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہا ہوں لیکن لگتا ہے ادھر کسی کو میری فکر نہیں خیر آج اتنے سالوں کے بعد آپ نے مجھے یاد کیا ہے کہئیے کیا حکم ہے۔۔ " وہ مؤدبانہ انداز میں بولا
"دیکھ شہریار تو گھر چھوڑ گیا ہمارے فیصلوں سے ٹکرا گیا پھر بھی ہم نے کچھ نہیں کہا بلکہ الٹا تیرے بینک میں لاکھوں پاؤنڈز ڈلوائے کہ تجھے پریشانی نہ ہو ، تو نے پلٹ کے ، ضد میں آکر مڑ کے نہیں دیکھا فون نہیں کیا اور ادھر ہم تیری جان و مال کا صدقہ دیتے رہے چار سال سے بھی اوپر ہو گئے ہیں تجھے گھر چھوڑے اب تو اپنی ضد چھوڑ دے واپس آجا !! تیرا باپ اسپتال میں پڑا ہے بس اب بس کر اور واپس حویلی آجا ۔۔۔"
"میں آجاتا ہوں مگر پھر اس کا اب کیا کریں گی؟؟ " اس نے درپردہ سویرا کی بات کی
"بس تو آجا !! تو تیری دلہن کی رخصتی کروالینگے ۔۔" وہ اطمینان سے بولیں
"مجھے رخصتی نہیں کروانی شاہ بی بی آپ یہ اچھی طرح جانتی ہیں ۔۔۔" وہ آستین فولڈ کرتا ہوا بلیو ٹوتھ کانوں میں لگا کر ڈرائیو کرنے لگا
"کیا مطلب !! بالکل نہیں کروانی یا ابھی نہیں کروانی؟؟؟" سنجیدگی سے پوچھا
"یہ رشتہ آپ لوگوں نے زبردستی جوڑا تھا میں کبھی بھی اسے رخصت نہیں کرواؤں گا آپ اس رشتے کو ختم کردیں تو میں بھی واپس آجاونگا ۔۔۔"
"رشتہ ختم کردیں؟؟؟ وہ تیری عزت ہے عزت تو اس سے ایسے منھ نہیں موڑ سکتا !! بچپن سے تیرے نام پہ بیٹھی ہے تیرے نکاح میں ہے !! تو اتنا بے غیرت کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنی نکاحی بیوی سے رشتہ توڑ کے اسے کسی اور کے حوالے کر دے ؟؟؟ آخر تجھے اعتراض کیا ہے ؟؟ "
" شاہ بی بی پلیز میری بات کو سمجھیں وہ مجھ سے عمر میں بہت چھوٹی ہے حویلی میں پلی بڑھی ایک دبو سی مشرقی لڑکی میرے ساتھ نہیں چل سکے گی میں دنیا گھومنا چاہتا ہوں میں اپنی بیوی کے ساتھ مل کے قدم سے قدم ملا کر زمانے کا سامنا کرنا چاہتا ہوں مجھے اپنی ہم عمر بیوی چاہیے پڑھی لکھی ماڈرن مضبوط لڑکی !!!" اس نے ہزاروں بار کی کہی بات دھرائی
"جب وہ تیرے نکاح میں آئی تھی اس وقت بچی تھی اور اب وہ جوان ہو چکی ہے ہمارے سات پشتوں میں اتنی خوبصورت لڑکی نہیں گزری ہے اور پڑھ بھی رہی ہے انٹر کا امتحان دیا ہے ابھی !! سگھڑ ہے نمازی ہے اور بڑے صاف دل کی لڑکی ہے میری سویرا ۔۔۔۔" انہوں نے تحمل سے کہا
"میں مانتا ہوں وہ بہت اچھی لڑکی ہے اس میں سبھی کچھ ہے مگر پھر بھی اس میں مجھے صرف ایک کزن روتی دھوتی بچی نظر آتی ہے میں اپنی پوری زندگی ایسے بے جوڑ رشتے میں بندھ کر نہیں گزار سکتا مجھے اپنا ہم عمر ساتھی چاہیے۔۔۔۔" وہ گویا ہوا
"ایسی جیون ساتھی تو خوش قسمتی سے ملتی ہے !! شہریار تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے تمہیں اس لڑکی کے قابل نہیں ہوں۔۔۔" ان کے لہجے میں بلا کا دکھ تھا
"شاہ بی بی !! آپ ایک دفعہ میرا نظریہ بھی تو دیکھیں کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ بے جوڑ شادی میرے ساتھ ناانصافی ہے کم از کم جیون ساتھی تو انسان کی پسند کا ہونا چاہیے ؟؟ یا ساری زندگی انسان اپنے ناپسندیدہ شخصیت کے ساتھ گزار دے آپ ایک دفعہ میری بات کو تو سمجھیں میری اس سے نہیں بنتی نا ہی بنے گئی !!!" وہ زچ ہوا
"دیکھ شاہ !! دنیا میں میں نے ایسے بہت سے جوڑے دیکھے ہیں جن کی آپس میں نہیں بنتی ذہنی مطابقت نہیں ہوتی خیالات نہیں ملتے اور وہ الگ ہو جاتے ہیں رشتے ٹوٹ جاتے ہیں مگر تیری طرح بغیر جانے، بغیر دیکھے بغیر پرکھے کون اپنی بیوی کو چھوڑتا ہے ؟؟ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے اسے مذاق مت بنا !! میں تیری ہر بات مان لو گی لیکن پہلے تو سویرا کو جان تو لے پرکھ تو لے ایسے مفروضات کی بنا پر اسے چھوڑنا ظلم ہے اور اب وہ کوئی اتنی بھی بچی نہیں ہے آٹھ دس سال کا فرق تو کوئی فرق نہیں ہوتا ۔۔۔۔" انہوں نے سمجھداری سے بات آگے بڑھائی
"آپ کہنا کیا چاہتی ہیں ؟؟" وہ الجھا
" دیکھ ادھر پوری برادری کو پتا ہے کہ سویرا تیرے نکاح میں ہے اب اگر تو اسے ملے بغیر ہی چھوڑ دیتا ہے تو ہمارے خاندان کی بنیادیں ہل جائیں گی کوئی بھی پھر آپس میں رشتہ کرنے کی نہیں سوچے گا اس لئیے پتر تو واپس آ !! اسے رخصت کروا پھر سال بھر بعد بھی اگر تجھے وہ نا بھائے تو پھر تیرا کوئی انتہائی فیصلہ کرنا حق پر ہوگا !! سوچ لے اس طرح تیری سسکتی تڑپتی ماں بھی تجھ سے مل لیگی اور تیرے باپ کو بھی چین ملیگا ۔۔۔" شاہ بی بی نے سمجھایا
" آپ کہنا کیا چاہتی ہیں !! کے اگر ایک سال کے عرصے میں میری اس سے نہیں بنی تو میں اسے طلاق دے سکتا ہوں ؟؟ آپ اور بابا سائیں میرا ساتھ دینگے ؟؟ " اس نے بے یقینی سے پوچھا
" ہاں مانا کے ہمیں بہت دکھ ہوگا لیکن یہ اطمینان تو ہوگا کہ تو نے کوشش کی اس رشتے کو نبھانے کی !! میں مرنے کے بعد اپنے فاروق کو منھ تو دکھا سکونگی ۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولیں
" ٹھیک ہے شاہ بی بی !! مجھے منظور ہے لیکن آپ بھی یاد رکھئیے گا کہ بات صرف ایک سال کی ہے اس کے بعد میں آزاد ہونگا اپنی پسند سے شادی کرکے زندگی گزارنے کیلئے ۔۔۔" وہ توقف کر کے ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا
"چل اب جلدی سے فلائٹ بک کروا اور آجا !! " انہوں نے پیار سے کہا
" میں ٹھیک تین بعد پاکستان میں ہونگا ۔۔۔"
______________________________
عروہ انتہائی حیرت سے شہر یار کو آفس کے سے باہر جاتا دیکھ رہی تھی !! آج پہلی دفعہ شہریار نے پیش قدمی کی تھی اسے چھوا تھا اور پھر صرف ایک فون کال کے لئے اسے بے دردی سے خود سے الگ کر کے چلا گیا تھا اسے حد سے زیادہ بےعزتی کا احساس ہو رہا تھا آنکھیں نم ہو رہی تھی اس نے سائیڈ پر پڑا اپنا پرس اٹھایا سن گلاسس آنکھوں پر لگائے اور باہر نکل آئی !! پارکنگ میں دور دور تک شہریار کی گاڑی کا نام و نشان تک نہیں تھا یعنی وہ اسے چھوڑ کر جاچکا تھا وہ پژمزدہ انداز میں چلتی ہوئی اپنی گاڑی تک آئی پرس سیٹ پر پھینکا اور خود سیٹ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ کر سر سٹیئرنگ سے لگا کر رونے لگی ۔۔۔
کافی دیر بعد اس نے سر اٹھایا اس کی خوبصورت سبز آنکھیں رونے سے سرخ ہو چکی تھی ایک گہرا سانس بھر کر اس نے خود کو کمپوز کیا اور پاس پڑا فون اٹھایا
"چار گھنٹے !! مجھے ادھر بیٹھے چار گھنٹے ہو گئے اور اس ظالم نے ایک فون بھی نہیں کیا !!"وہ ٹائم دیکھتی ہوئی بڑبڑائی
کچھ سوچ کر اس نے شہریار کا نمبر ملایا جو مسلسل بزی جا رہا تھا
" شیری کال می !! " اس نے ٹیکسٹ کیا
کافی دیر تک کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے سلگتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی اور شہریار کے گھر کی جانب روانہ ہو گئی ۔۔۔
شہریار کے بڑے سے محل نما گھر کے ڈرائیو وے پر اس نے گاڑی پارک کی اور نیچے اتر کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مین دروازے پر پہنچ گئی
بیل بجانے سے پہلے اس نے اپنی انگلیاں بالوں میں چلاتے ہوئے انہیں درست کیا ۔۔
بیل بجائی اور جلدی سے اپنی شرٹ کو کھینچ کر درست کیا سلوٹیں دور کی !! بیل کا جواب نہیں آیا اس نے لیونگ روم کی کھڑکی سے اندر جھانکنے کی کوشش مگر دبیز پردوں کی وجہ سے اسے کچھ نظر نہیں آیا وہ پلٹ کر گاڑی کی طرف گئی اور اپنے پرس سے گھر کی چابی نکالی اور واپس اوپر آئی اب وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو چکی تھی پورا گھر سائیں سائیں کر رہا تھا
" ہیلو !! شیری کہاں ہو ؟؟؟ " وہ آوازیں دیتی ہوئی آگے بڑھی اندر ہی شہریار کا بیڈروم تھا جسکا دروازہ ہلکا سا وا تھا اندر سے اس کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھی ۔۔۔
وہ دھیرے سے آگے بڑھی سامنے ہی شیری جینز پہنے بنا شرٹ کے کانوں میں ہیڈفون لگائے اپنے آفس اسٹاف کو ہدایات دے رہا تھا ساتھ ہی ساتھ بیڈ پر ایک سوٹ کیس کھلا پڑا تھا جس میں وہ کپڑے رکھ رہا تھا شاید کسی بزنس ٹرپ پر جا رہا تھا ۔۔۔
وہ غور سے اسے دیکھ رہی تھی لمبا چوڑا ورزشی جسامت والا شیری !! ایسے ہی تو وہ اس پر نہیں مر مٹی تھی بنا آواز کئیے وہ دھیرے سے آگے بڑھی اور شہریار کے برہنہ شانے سے سر ٹکا کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔
شاہ بی بی سے بات کرنے کے بعد شہریار اپنا مائنڈ بنا چکا تھا اس نے سب سے پہلے استنبول جانا تھا اپنی ایک بہت اہم میٹنگ کو جلدی سے نپٹا کر وہی سے پاکستان روانہ ہونا تھا !! وہ بھی تڑپ رہا تھا اپنے ماں باپ سے ، اپنی بہن سے ، سب سے بڑھ کر اپنی جان سے پیاری دادی شاہ بی بی سے ملنے کے لئے ، سارے کاموں سے نپٹ کر سیٹ بک کروا کر وہ نہا کر نکلا کےاسے رات کی فلائٹ سے ترکی روانہ ہونا تھا بستر پر بیگ رکھے وہ اپنی پیکنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیکریٹری کو ہدایات دے رہا تھا تب ہی اچانک کسی نے اس کے شانے پر سر رکھا وہ تیزی سے پیچھے مڑا۔۔۔
"تم !! تم اس وقت ادھر کیا کررہی ہو ؟؟ " فون بند کرکے وہ عروہ کی جانب پلٹا
" میں کب سے تمہیں کال کر رہی تھی میسجز بھی چھوڑے کیا تم نے چیک نہیں کیا۔۔۔" اس نے ٹھنک کر کہا
" کیسے میسجز میں مصروف تھا بہر حال کہو کیسے آنا ہوا ؟ " وہ ٹی شرٹ اٹھاتے ہوئے بولا
"رہنے دو نا !! میں ہی تو ہوں " وہ اس کے ہاتھ سے شرٹ لیتی ہوئی بولی
"اپنی لمٹ میں رہو مجھے شادی سے ایسی بےتکلفی پسند نہیں !! " یہ کہہ کر اس نے اپنی شرٹ اس کے ہاتھ سے چھینی اور پہن لی
" اوہ !! اور آج صبح آفس میں جو میرے ساتھ بےتکلفی کا مظاہرہ کیا اسے کس کھاتے میں ڈالو گئے مسٹر شہریار ؟؟ " وہ غرائی
" دیکھو عروہ !! سویٹ ہارٹ میں اس وقت بزی ہوں تین گھنٹے میں مجھے فلائٹ پکڑنی ہے ایک دو ہفتے میں میں واپس آجاونگا پھر کھل کر بات کرینگے ۔۔۔" اس نے سمجھایا
" شیری تم کدھر جا رہے ہو ؟؟ مجھے بتائے بنا ۔۔" وہ دو ہفتے کا سن کر حواس باختہ ہوئی
" میں ایک کام سے استنبول جا رہا ہوں وہاں تین دن ٹہر کر پاکستان جاؤنگا ۔۔۔"
" پاکستان !!!نہیں شیری ایسا مت کرو تم نے تو کہا تھا تم اپنے بابا سائیں کو یہی بلاوگے علاج کیلئے ۔۔۔۔"
" عروہ !!! میرا جانا ضروری ہے بس دو ویک کی تو بعد ہے پھر میں واپس ادھر آجاؤں گا تمہارے پاس ۔۔۔"
"نہیں شیری میں میں !!! " وہ کہتے کہتے رک گئی اور پلٹ کر جانے لگی
شہریار نے تیزی سے اس کی کلائی تھام کر اسے روکا
" کہا جا رہی ہو ؟؟ "
"میں گھر جا رہی ہوں !! "
"کیوں!! اپنی بات تو مکمل کرو ۔۔۔"
"شیری ہاتھ چھوڑو مجھے ابھی گھر جا کر پیکنگ کرنی ہے ڈیڈ سے بات کرکے سیٹ بک کرانی ہے !! "
" تم کہاں جا رہی ہو ؟؟ "
" تم نہیں ہم !! میں تمہارے ساتھ جا رہی ہوں پہلے استنبول پھر پاکستان ۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولی
" دماغ درست ہے تمہارا ۔۔۔میں تمہیں ساتھ نہیں لے جاسکتا ۔۔۔" وہ تپ گیا
"مگر کیوں ؟؟؟ پیار کرتے ہو مجھ سے شادی کیلئے پرپوز تک کرچکے ہو !! تو پھر ساتھ لے جانے میں کیا قباحت ہے ؟؟ یا پھر میں یہ سمجھوں کہ تم مجھ سے اتنے عرصے سے فلرٹ کررہے تھے ؟؟ " وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی
" عروہ !! جاؤ جو کرنا ہے کرو ۔۔۔" وہ ضبط کرتے ہوئے اس کا ہاتھ جھٹک کر بولا
عروہ ایک نظر اس کے غصہ سے سرخ چہرے کو دیکھتے ہوئے باہر نکل گئی.
جاری ہے
Comments
Post a Comment