وہ میرا تھا مگر ... قسط 2

#وہ_میرا_تھا_مگر سیما شاہد رائٹر قسط 2 شہریار شاور لیکر لباس تبدیل کرکے باہر آیا !!عروہ بڑے مزے سے صوفے پر دونوں پاؤں اوپر کئیے بیٹھی تھی سامنے ٹی وی آن تھا ۔۔ " شیری۔ جلدی آؤ دیکھو بڑے مزے کا ٹاک شو آرہا ہے ۔۔۔" اس نے بڑے جوش سے شہریار کو پکارا "عروہ !! کیا ہوا کھانا آرڈر نہیں کیا ؟؟؟ " "شیری ڈیلوری ہوچکی ہے میں تمہارا ویٹ کررہی تھی ۔۔۔" وہ صوفے سے اٹھتی ہوئی بولی " چلو آؤ پھر ڈنر کرتے ہیں۔۔۔" وہ بڑے سے اٹالین طرز پر بنے ہوئے کچن کی جانب بڑھتا ہوا بولا عروہ نے جلدی جلدی میز پر برتن رکھے اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔۔ " عروہ یار یہ چاول ڈش میں نکالو میں ڈرنکس نکالتا ہوں " اس نے میز پر بیٹھی عروہ کو پکارا " شیری !!! تم سیریسلی کوئی بھی کام میرے بغیر نہیں کرسکتے ۔۔۔" وہ ناز سے کہتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ سے چائینز رائس کا باکس لیکر ڈش میں نکالنے لگی شہریار بڑے آرام سے فرج سے ٹیک لگائے اسے دیکھ رہا تھا " کیا ہے ؟؟ اب مہاراج کوک نکالنے کی زحمت کرینگے یا وہ بھی میں ہی کروں !!!" چاول اور چکن چاؤمن میز پر رکھ کر عروہ نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورا شہریار مسکراتے ہوئے پلٹا اور کوک کے کینز نکال کر میز پر آگیا " شیری !!! " عروہ نے کھانا کھاتے ہوئے اسے پکارا " ہاں بولو " وہ کوک کا سپ لیتے ہوئے بولا " ہم کب تک ایسے ہی ملتے رہینگے ؟؟ " وہ سنجیدگی سے بولی " کیا مطلب ؟؟" شہریار نے کین رکھا " شہریار اب تم اتنے بھی بھولے مت بنو !! چار سال سے ہم ڈیٹ کر رہے ہیں اب تو ممی ڈیڈی بھی سوال کرنے لگے ہیں !! " وہ تپ کر بولی " عروہ میں دوسال پہلے ہی تمہیں پرپوز کر چکا ہوں اب اور کیا کروں ؟؟ " " دیکھو شیری تم اچھے سے جانتے ہو جب تک تمہارے پیرنٹس میرے ممی ڈیڈی سے رشتہ نہیں مانگیں گے وہ راضی نہیں ہونگے ۔۔" " میرے بابا سائیں !! ادھر آنا نہیں چاہتے وہ تو میرے ہی ادھر رہنے پر ناراض ہیں میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں اکیلا ہوں اگر تمہیں یا تمہارے ماں باپ کو میں ایسے ہی منظور نہیں تو دروازہ کھلا ہے تم جاسکتی ہو !!!" وہ سرد لہجے میں بولا عروہ اٹھ کر اس کے پاس آئی اور دوزانوں ہو کر اس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی " شیری !! تم میری جان ہو ، اگر مجھے تمہاری خاطر اپنے پیرنٹس کو بھی چھوڑنا پڑا تو میں چھوڑ دونگی لیکن کوئی درمیانی راہ نکالنے کی کوشش تو کرو ۔۔۔" اس نے شہریار کا ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگایا " آخر میں کیا کروں ؟؟ تم پاکستان جانے کو راضی نہیں اور بابا سائیں لندن آ نا نہیں چاہتے ۔۔"شہریار زچ آکر بولا " دیکھو شیری !! اوپر والے نے ہمیں ایک گولڈن چانس دیا ہے تمہارے بابا سائیں ہسپتال میں ہیں انہیں علاج کے بہانے ادھر بلا لو باقی میں خود دیکھ لونگی ۔۔" وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی " تم کیا دیکھ لو گئی ؟؟ " " دیکھوں جب وہ تمہیں میرے ساتھ خوش دیکھیں گے تو خود ہی شادی پر راضی ہو جائینگے ویسے بھی جب تک وہ مجھ سے ملینگے نہیں انہیں میرے بارے میں کیسے پتا چلیگا کہ ان کا بیٹا میرا اسیر ہے " وہ ناز سے بولی "ٹھیک ہے میں کچھ سوچتا ہوں !! "وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرکے کھڑا ہو گیا عروہ نے میز سمیٹ کر برتن سنک میں رکھے " کافی پینے چلیں!!! " وہ شہریار کے پاس آئی " یار کم از کم کافی بنانا تو سیکھ لو !! " " کتنے کنجوس ہو اتنے بڑے بلین ائیر کی گرل فرینڈ اب کیا کچن میں کام کرے گی ؟؟ " عروہ نے منھ بنایا تبھی اس کا فون بجا " ممی کی کال آرہی ہے ۔۔۔" عروہ نے فون اٹھایا تو کال مس ہو گئی " اچھا میں چلوں !! تم آرام سے بیٹھ کر اپنے بابا سائیں کو بلانے کا پروگرام بناؤ ۔۔۔" وہ آرام سے اس کے گالوں کو چومتی باہر نکل گئی شہریار بہت دیر بیٹھا سوچتا رہا عروہ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کیلیئے اسے بابا سائیں کی ضرورت تھی اور اس مقصد کیلئے اسے رخسار آپی کو اعتماد میں لینا تھا اس نے کلائی پر بندھی گھڑی میں ٹائم دیکھا اور اپنا سیل اٹھا کر رخسار آ پی کو فون ملانے لگا ۔۔۔ بیل جاتی رہی اس نے کئی بار فون ملایا پر بیل جاتی رہی تھک ہار کر وہ اٹھا اور اپنے کمرے کی جانب چلا گیا _________________________________ فجر کی اذان ہو چکی تھی سویرا جلدی سے نماز پڑھ کر شاہ بی بی کے کمرے کی جانب بڑھی دروازہ نیم وا تھا اس نے اندر جھانکا تو شاہ بی بی نماز کی چوکی پر بیٹھی نظر آئیں " اسلام علیکم !! شاہ بی بی " "وعلیکم السلام ورحمتہ وبرکاتہ " " آپ کب واپس آئیں مجھے تو پتا ہی نہیں چلا " " رات دیر سے واپسی ہوئی رخسار نے بتایا تم بھوکی ہی سوچکی ہو ۔۔۔" " جی بس وہ ایسے ہی نیند آ گئی ۔۔ " " سویرا بیٹی اپنی پھپھو کی باتوں کا برا مت مانا کرو اور دیکھو آئندہ ایسے بھوکے پیٹ مت سونا !! کیوں اپنے باپ کو قبر میں پریشان کرتی ہوں ؟؟ " " تایا سائیں کیسے ہیں !! " "پہلے سے تھوڑا بہتر ہے !! " " گھر کب آئینگے !!" " بس اس کی شوگر کنٹرول ہو جائے تو بڑا ڈاکٹر آپریشن کریگا پھر تمہارے تایا سائیں گھر آئینگے تم بس دعا کیا کرو !!" " اچھا شاہ بی بی میں ناشتہ بنا لوں ۔۔۔۔" " ہاں بنا لو اور سنو صغراں مائی کو ساتھ لگا لینا " وہ تسبیح گھماتے ہوئے بولیں سویرا کچن میں آئی تو رخسار بجو اور صغراں مائی پہلے سے ہی ناشتہ بنانے میں لگی ہوئی تھیں ۔۔ " سویرا شاباش جلدی سے یہ دودھ کا گلاس ختم کرو اور پھر یہ برتن میز پر لگاؤ ۔۔ " جلدی جلدی سے انڈے تلتے ہوئے رخسار نے ساتھ رکھا دودھ کا گلاس اس کی جانب بڑھایا "بجو آپ !! " " بس اب ایک لفظ اور نہیں یہ گلاس جلدی سے ختم کرو !! "رخسار نے اسے ٹوکا سب کا ناشتہ بن چکا تھا حویلی کے سارے افراد ناشتہ اپنے اپنے کمروں میں کرتے تھے ہاں دوپہر اور رات کا کھانا ساتھ کھایا جاتا تھا رخسار ملازموں کے ہاتھوں ناشتہ بھجوا رہی تھیں تبھی انٹر کام بجا رخسار نے بات کی اور مڑی " مائی !! شاہ بی بی اور امی کا ناشتہ شاہ بی بی کے کمرے میں لے جاؤ " رخسار نے ٹرے سجا کر صغراں کو تھمائی " سویرا میں ان کو ناشتہ کرا کر آتی ہوں تمہارا انڈہ پراٹھا یہ رکھا تم بھی جلدی سے ناشتہ کر لو آج ہم دونوں بابا سائیں سے ملنے جائیںگے ۔۔" وہ اپنا اور اپنے شوہر کا ناشتہ لیکر باہر چلی گئی سویرا نے بیدلی سے ناشتہ کیا اور اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھی کمرے میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ اس کی نظر میز پر رکھے رخسار کے فون پر پڑی وہ فون اٹھا کر اسے گھورتی رہی پھر رخسار کے کمرے کی جانب بڑھی اراداہ انہیں فون واپس کرنے کا تھا ۔۔۔ کمرہ خالی تھا اکرم بھائی آفس جا چکے تھے وہ فون کو ہاتھ میں دبوچے ہوئے رخسار کو ڈھونڈتی ہوئی شاہ بی بی کے کمرے تک آئی ۔۔ " رخسار بیٹی تمہارا تو شاہو سے رابطہ ہے اسے سمجھاؤ کے واپس آجائے اس کے آنے سے ہی تمہارے بابا سائیں کی طبعیت سنبھل جائیگی !! " زاہدہ تائی کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی " امی جی !! وہ نہیں مانتا کہتا ہے سویرا کو اس کی زندگی سے نکال دیں تب ہی آئیگا ۔۔۔" رخسار نے جواب دیا " شاہ بی بی اب آپ ہی کچھ کریں !! اگر ان کو کچھ ہوگیا تو !!! " زاہدہ تائی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں " زاہدہ !! میں مجبور ہوں ایک طرف اگر پوتا ہے تو دوسری طرف پوتی !!!! " سویرا خاموشی سے دروازے سے ہٹ گئی اس کی ذات سے آج اس کے پیارے تکلیف میں تھے ۔۔ " اے سویرا چل جلدی سے کچن میں جا اور سارے برتن صاف کرکے رکھ ۔۔۔" پاس سے گزرتی پھپھو نے اسے کچن کا راستہ دکھایا سویرا کیچن میں ناشتے کے برتن دھونے میں مصروف تھیں جب رخسار اندر داخل ہوئی اور سویرا کو برتنوں کے ڈھیر سے الجھتا دیکھ کر وہ تیزی سے اس کے پاس آئی " سویرا !!! یہ تم برتن کیوں دھو رہی ہو تو صغرا مائی کدھر ہے ؟؟ ویسے بھی تمہارے سر پر کیا کم کام ہیں ، جب سے بابا سائیں ہسپتال گئے ہیں پھپھو نے بھی گھر کی ساری ذمہ داری تم پر ڈال دی ہے آنے دو بابا سائیں کو ایک ایک بات بتاؤں گی انہیں ۔۔۔۔" رخسار نے اس کے ہاتھ سے برتن چھڑا کر نلکا بند کیا " رخسار بجو کرنے دیں !! بس تھوڑے سے ہی تو برتن ہے پھوپھو ناراض ہو جائیں گی !! " وہ عاجزی سے بولی " غضب خدا کا یہ تمہیں تھوڑے سے برتن دکھتے ہیں ویسے یار تم بھی کیا سوچتی ہوگی کہ میں منہ پر کتنا پیار جتاتی ہوں اور جب تم پر پھوپھو ظلم کرتی ہیں تو چپ رہ جاتی ہوں " وہ افسردگی سے بولی " نہیں نہیں رخسار بجو ایسا مت کہیں ایک آپ ہی تو ہیں جو مجھے پیار کرتی ہیں ورنہ میں تو !!! میں تو کچھ بھی نہیں " اس کی آنکھوں میں نمی امنڈ آئی "پھوپھو تم پر اس قدر ظلم ڈھاتی ہیں اور تم افف کئیے بغیر ان کی ہر بات کو مانتی ہوں!! کام کئیے جاتی ہے !! یاد رکھو سویرا تم بھی اس گھر کی بیٹی ہوں انکار کرنا سیکھو اپنا حق پہچانو خدا کے لئے اپنے آپ کو اس طرح ختم مت کرو !! دیکھنا ایک دن آئے گا جب شہریار پلٹے گا اور تمہیں اس حویلی سے دور بہت دور لے جائے گا پریوں کے دیس میں۔۔ !! " سویرا نے ایک نظر رخسار کو دیکھا اور پھیکی سی ہنسی ہنس کر نلکا کھول کر برتن دھونے لگی "اچھا چلو دھو لو برتن لیکن ایک گھنٹے کے اندر اندر تیار ہوجاؤ !! میں بھی تیار ہو کر آتی ہوں مل کر بابا سائیں سے ملنے چلتے ہیں مجھے پتا ہے وہ ہمیں یاد کر رہے ہوں گے۔۔۔" رخسار اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کچن سے نکل گئی سویرا جلدی جلدی سارے کام نپٹاکر اپنے کمرے میں آئی الماری کھول کر ایک سادہ سا جوڑا نکالا اور جلدی سے تیار ہو گی باہر نکلی تو سامنے ہی رخسار اور زاہدہ تائی چادراوڑھے اس کا انتظار کر رہی تھی "بجو میں ریڈی ہوں !! " وہ بولتی ہوئی اندر آئی " رخسار تو ہاسپٹل جا رہی !! بی بی تم کہاں جا رہی ہو " پاس بیٹھی فرزانہ پھپھو نے اعتراض کیا "پھوپھو میں سویرا کواپنےساتھ ہسپتال لے کر جا رہی ہوں !!! پرسوں جب میں ہسپتال گئی تھی تو بابا سائیں اسے یاد کر رہے تھے۔۔۔" رخسار کھڑے ہوتے ہوئے بولی "کوئی ضرورت نہیں ہے !! اس کے منحوس وجود کو ہسپتال لے جانے کی !! اپنے ماں باپ کو تو کھا چکی ہے اب کہیں میرے بھائی کو کچھ نہ ہو جائے۔۔۔بس یہ نہیں جائیگی ۔۔۔" وہ قطعی لہجے میں بولیں " امی آپ پھپھو سے کہئیے نا !!سویرا کو جانے دیں ۔۔۔" رخسار نے زاہدہ تائی کو مخاطب کیا "رخسار بیٹی بحث نہیں کرتے !! اور سویرا تم اندر جاؤ شاہ بی بی گھر پر رک رہی ہیں ان کا خیال رکھنا اور فرزانہ باجی آپ ہمارے ساتھ چلیں ۔۔" زاہدہ کھڑی ہو گئی سویرا بے یقینی سے اپنی ماں جیسی تائی کا بدلتا روپ دیکھ رہی تھی ۔۔۔ " اے لڑکی کھڑی کیا دیکھ رہی ہے ؟ جا اندر جا ...!!!! " فرزانہ نے اس کا سکتہ توڑا ________________________________ سویرا آنکھوں میں آۓ آنسو صاف کرتے ہوئے پلٹ کر واپس اپنے کمرے میں آگئی آج اس کا دل دکھ سے پھٹ گیا تھا اس کی تائی جنہوں نے اسے اتنے پیار سے پالا اور نکاح کے بعد بھی اتنا سپورٹ کیا آج وہ بھی بدل گئی تھی۔۔۔ وہ کمرے میں چکر پر چکر کاٹ رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا کیا کریں کہ سب ٹھیک ہو جائے اور لوگ اس سے نفرت نہ کریں۔۔۔ تھک ہار کر وہ وضو کرنے چلی گئی اور پھر جائے نماز بچھا کر نفل پڑھنا شروع ہو گئی.... نماز پڑھ کر دوپٹہ ڈھیلا کرتے ہوئے وہ شاہ بی بی کے کمرے میں کھانے کا پوچھنے آئی ۔۔ "سویرا تم ہسپتال کیوں نہیں دی گئی ؟؟ " شاہ بی بی اسے دیکھ کر حیران ہوگئی " بس بی بی ایسے ہی !! آپ بتائیں کھانے میں کیا پکانا ہے ۔۔۔؟ " سویرا نے بات ٹالی "ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو!!! " انہوں نے اسے پاس بلایا جو بھی تھا وہ ان کے سب سے لاڈلے چھوٹے بیٹے کی نشانی تھی " مجھے سب خبر ہے یقینا فرزانہ تمہیں چھوڑ گئی ہو گی !! آنے دو اس کو آج !! دیکھو ایک بات تم بھی سمجھ لو سویرا کتنی بار سمجھا چکی ہوں بیٹا یہ گھر تمہارا بھی ہے تم فرزانہ کی باتوں کو دل پر مت لیا کرو اس کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا کرو ۔۔۔۔" وہ پانی کا خالی گلاس اسے پکڑاتے ہوئے بولیں " وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا تم خوش رہا کرو فرزانہ کے سامنے مت آیا کرو اور فکر مت کرو تمہارے تایا سائیں جلد ٹھیک ہو کر گھر آجائیں گے پھر کسی کی ہمت نہیں ہوگی تم پر انگلیاں اٹھانے کی ۔۔۔۔۔ "تم نے سنا بھی ہے میں کیا کہہ رہی ہوں بس اس خالی گلاس کو ہی گھورے چلی جا رہی ہوں طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری؟؟؟ " شاہ بی بی نے اسے ٹوکا "شاہ بی بی میری زندگی بھی تو ایسے ہی ہے نا بالکل خالی کھوکھلی ویران اس تانبے کے گلاس کی طرح کوئی رنگ ہی نہیں ہے ، میری زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔۔۔۔" وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولی "تم ایسا کیوں سوچتی ہوں تمہارے تایا تم سے کتنا پیار کرتے ہیں میں تم سے کتنا پیار کرتی ہوں خدا کے لئے خود پر ترس کھانا چھوڑ دو!!! " انہوں نے اسے ٹو کا "شاہ بی بی آپ مجھ سے پیار کرتی ہیں ؟؟ بتائیں نہ کرتی ہیں نا ؟؟ شاہ بی بی میں سسک سسک کر زندگی نہیں گزارنا چاہتی آپ مجھ پر رحم کریں !!! آپ پلیز انہیں واپس پاکستان بلالیں آپ بلائینگی تو وہ ضرور آئینگے !!! آپ ان کی دوسری شادی کروا دیں پلیز !!! مجھے مجھے سب کی نفرت سے بچا لیں !!! میں تائی امی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتی !! آپ کو میرے بابا کا واسطہ !!! " وہ بری طرح سسک اٹھی " اور تم ؟؟ سویرا تمہارا کیا ہوگا ؟؟ " انہوں نے بغور اپنی پوتی کو دیکھا " میری خاطر پورے گھر کو داؤ پر مت لگائیں میرا انٹر کا رزلٹ آنے والا ہے آپ پلیز میرا داخلہ میڈیکل کالج میں کروا دیں مجھے ہاسٹل بھیج دیں میں تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو !!!" اس نے امید بھری نظروں سے انہیں دیکھا " اچھا تم جاؤ آج آرام کرو کام کاج صغراں دیکھ لے گئی ۔۔۔" انہوں نے اسے ٹالا " شاہ بی بی !! آپ ۔ " سویرا تم جاؤ !!! ابھی میں زندہ ہوں فکر مت کرو مجھے سوچنے دو ۔ ________________________________ شہریار آفس میں ایک ڈیلیگیشن سے میٹنگ میں مصروف تھا ۔۔۔ " اوکے مسٹر شہریار تو ڈیل فائنل ؟؟ " کے اینڈ کو کے مالک جونس نے پیپر سائن کرکے سر اٹھایا " یس جونس !! اٹس ڈن !! " شہریار نے ہاتھ ملایا وہ بیحد خوش تھا لندن کا ہر بزنس مین اس بلین ڈالر اکاؤنٹ کو حاصل کرنا چاہتا تھا جو آج اس کے پاس تھا کامیابی کی راہ میں ایک اور قدم ۔۔ " شہریار بڈی اب پارٹی ڈیو ہے !! " تیس سالہ جونس نے کہا "جی ضرور میں آج ہی ریسٹورنٹ بک کرواتا ہوں ؟! " " آج نہیں بڈی !! میں ایک ماہ کیلئے ڈلاس جا رہا ہوں واپس آکر تمہارے گھر پر ڈنر کرونگا ۔۔۔۔" جونس نے اپنے نئے پارٹنر شہریار کو توصیفی نگاہوں سے دیکھا "Done will do dinner at my place After you come back ... _" جونس کے جانے کے بعد وہ ریلیکس ہو کر سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔۔۔ " سر !!مس عروہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں !! " انٹرکام پر اس کی سیکریٹری کی آواز گونجی " اوکے سینڈ ہر ان !!! بھیج دو ...." وہ سکون سے بولا " ہیلو شیری !!!۔۔۔۔" عروہ ایک خوشگوار جھونکے کی مانند اندر آئی " کیا بات ہے آج تو اسمائل کررہے ہوں ۔۔۔۔" وہ اس کے پاس آکر کھڑی ہوئی شہریار نے ایک نظر عروہ کے خوبصورت چمکتے ہوئے چہرے کو دیکھا کوئی تو تھا جو اس کی خوشیوں میں خوش تھا شہریار نے دھیرے سے اس کا ہاتھ پکڑا اور پھر اچانک اسے گھسیٹ کر اپنی آغوش میں لے لیا ۔۔۔ عروہ حیران تھی یہ اسٹون مین جو شادی سے پہلے ہاتھ پکڑنا بھی گناہ سمجھتا تھا آج اسے اپنی آغوش میں لئیے اس کے بالوں میں منھ چھپا رہا تھا !!! عروہ نے ایک آسودہ سی سانس لی اور اپنی بانہیں شہریار کے گلے میں ڈال دیں شہریار عروہ کو لیکر بیخود ہورہا تھا جب اس کا فون بجنا شروع ہوا ۔۔۔۔۔ شاہ بی بی کالنگ !!!! اس کی نظر فون پر پڑی اس نے عروہ کو آرام سے خود سے علیحدہ کیا ۔۔۔ " کیا ہوا شیری !!! ؟؟ " عروہ بدمزہ ہوئی شہریار فون کو گھورے چلے جا رہا تھا " شیری کیا ہوا ؟؟ کس کا فون ہے ؟؟ ایسے کیوں فون کو گھورے جا رہے ہو ؟؟ " وہ زچ ہوئی " عروہ تم جاؤ !! " شہریار نے فون اٹھایا اور کان سے لگاتا ہوا آفس سے باہر نکل گیا. جاری ہے

Comments