وہ میرا تھا مگر ... قسط 1

#وہ_میرا_تھا_مگر قسط 1 شیشے سے بنی اس بارہ منزلہ پرشکوہ عمارت کی لفٹ سے نکلتا بلیک آفیشل سوٹ میں ملبوس ٹائی لگائے آنکھوں پر سن گلاسز اور ہاتھ میں لیپ ٹاپ اٹھائے وہ باہر نکلا اسے دیکھتے ہیں سب لوگ اٹینشن کھڑے ہو گئے اس کی پرسنالٹی اس کا رعب دیکھنے کے قابل تھا وہ سر کے اشارے سے سب کو جواب دیتا سیدھا مین اینٹرنس سے باہر نکلا تو سامنے ہی اس کا ڈرائیور دروازہ کھولے بڑے مؤدبانہ انداز میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ آج وہ ایک بہت بڑی ڈیل کرکے اپنے محل نما گھر پہنچا تھا ۔۔ وہ شاور لے کر ٹراوزر شرٹ پہنے ماتھے پہ گیلے بال بکھرائے واش روم سے نکل کر اپنے کمرے میں موجود صوفہ پر بیٹھا ہی تھا کہ اس کا سیل فون بجنے لگا ۔۔۔۔ وہ چند لمحے فون کی اسکرین کو دیکھتا رہا جہاں رخسار آپی لکھا ہوا آرہا تھا۔۔ "ہیلو...." بالآخر اس نے فون اٹھایا "کیسے ہو شہریار مہینوں گزر جاتے ہیں میں فون کرو تو کرو تمھیں ہماری یاد نہیں آتی...." انہوں نے چھوٹتے ہی شکوہ کیا "آپی آپ سب جانتی تو ہیں کہئیے آج میری یاد کیسے آگئی ہے۔۔۔" نا چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ روڈ تھا "کل تمہارا ٹائم میگزین میں انٹرویو پڑھا بہت خوشی ہوئی دنیا کے دس بڑے آدمیوں میں شامل ہو گیا میرا بھائی وہ بھی اتنی کم عمری میں میرا تو خوشی سے برا حال تھا کل سے تمہیں فون کرنا چاہ رہی تھی مگر ۔۔۔۔" وہ پھیکے لہجے میں بولی "مگر ! کیا آپی میری زندگی میں تو آپ لوگوں نے اس مگر کے سوا کچھ نہیں چھوڑااور اب جب میں سب کچھ چھوڑ آیا ہوں تو بھی آپ لوگ مجھے نہیں چھوڑتے۔۔۔۔" وہ بے رخی سے بولا "شاہوں میرے بھائی معذرت چاہتی ہوں اگر تمہارا دل دکھا ہو تو مگر ایک ہفتے سے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور کل ایمرجنسی میں ہسپتال لے جانا پڑا وہ کچھ کہتے نہیں ہیں مگر ان کے دل میں تم سے ملنے کی تمنا ہے کیا تم سب بھول کر ان سے ملنے پاکستان نہیں آ سکتے..."رخسار نے ریکویسٹ کی "پاکستان شاید آپ بھول گئی ہیں میرے پاکستان آنے کی شرط اگر آپ میرے گلے میں پڑا پھندا اتار کر پھینکنے کے لئے تیار ہیں تو میں ابھی کہ ابھی پاکستان آ جاتا ہوں ۔۔۔" وہ طنزیہ لہجے میں بولا "شاہو تم نے کبھی سوچا ہے اس سب میں سب سے بڑا نقصان اس معصوم کا ہو رہا ہے اس کا کیا قصور ہے کہ تم اسے ہر ایک کا نشانہ بنانے کو اکیلا چھوڑ گئے تمہاری بے رخی گھر سے لاتعلقی ان سب چیزوں کا طعنہ اسے دیا جاتا ہے۔۔۔" رخسار سنجیدگی سے بولی "اس کا قصور یہ ہے کہ وہ زبردستی میری زندگی میں شامل ہوئی ۔۔۔۔" وہ غرایا "ٹھیک ہے تم اپنے رونے روتے رہو !! اگر بابا کو کچھ ہو گیا تو پھر ساری زندگی پچھتاتے رہنا ۔۔"رخسار نے نم آواز میں کہہ کر فون رکھ دیا __________________________________ وہ بہت دیر سے چپ چاپ شاہ بی بی کی پائنتی پر بیٹھی ان کے پیر دبا رہی تھی ۔۔۔۔ "شاہ بی بی !! آپ اتنا پریشان مت ہوں میں نے شاہو کو کال کردی ہے دیکھیں اس طرح تو آپ اپنا بلڈ پریشر بڑھا لینگی ۔۔۔" تیس سالہ باوقار سی رخسار اپنی دادی کو تسلی دیتے ہوئے بولی " رخسار !! اتنے نازو سے اسے پالا پوسا سو طرح کے نخرے اٹھائے اور وہ؟؟ ایک لمحے میں ہمارے فیصلے سے بغاوت کرتا یہ حویلی ہی چھوڑ گیا پانچ سال ہوگئے پلٹ کر نہیں دیکھا لیکن اب تو اس کا باپ بھی ہسپتال جا پہنچا ہے تو کہہ دے اسے کہ اگر اب نہیں آیا تو پھر وہ ہمارے لئیے مر گیا ۔۔" سرخ و سفید باوقار سی شاہ بی بی رعب سے بولیں "ہائے اللہ شاہ بی بی !! کیسے آپ نے منہ بھر کر میرے شاہو کو ایسا کہہ دیا اس کا کیا قصور ہے بتائیں ایک تو آپ سب نے میرے بچے کے گلے میں اس منحوس لڑکی کو ڈال دیا جو اپنے ماں باپ کو تو کھا ہی چکی ہے اب تو بھائی صاحب بھی اس کے کارن ہسپتال جاپہنچے ہیں ۔۔۔" فرزانہ خاموشی سے آنسو پیتی سویرا کو دیکھتے ہوئے نفرت سے بولیں "سویرا بیٹی تم جا کر ذرا باورچی خانہ دیکھ لو اپنے تایا کیلیئے پرہیزی کھانا اپنی نگرانی میں بنوا لو ۔۔۔" زاہدہ تائی نے خاموشی سے آنسو پیتی سویرا کو مخاطب کیا "جی تائی امی !! " وہ تابعداری سے سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی " فرزانہ !! میں نے تمہیں کئی بار سمجھایا ہے سویرا کے سامنے ایسی باتیں مت کیا کرو میری بیٹی ہو کر تم اتنی کھٹور کیسے ہو ۔۔ " شاہ بی بی نے تاسف سے اپنی صاحبزادی کو دیکھا "شاہ بی بی !! معاف کیجئے گا لیکن فرزانہ آپا نے ٹھیک ہی تو کہا ہے پورے پانچ سال سے میں نے اس لڑکی کی وجہ سے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا ایک رات سکون سے نہیں سوئی اب تو میرا صبر بھی لبریز ہونے کو ہے !! رحم کریں مجھ پر اسے بلا لیں آخر وہ بھی تو آپ کا خون ، آپ کا پوتا ہے کیا آپ کو وہ یاد نہیں آ تا کیا ؟؟؟ " زاہدہ تائی کی آواز بھرا گئی کمرے کے باہر پرہیزی کھانے کے بارے میں پوچھنے کیلئے آئی سویرا آنکھوں میں نمی لئیے بنا آہٹ کئیے پلٹ گئی _________________________________ لندن میں اس وقت صبح کے پانچ بج رہے تھے ٹھنڈک اور خنکی اپنے عروج پر تھی بڑی روشن کشادہ سڑک پر اس ٹھنڈ میں منہ اندھیرے وہ ٹراؤزر اور ہالف سلیو ٹی شرٹ پہنے جاگنگ کررہا تھا ماتھے پر بال بکھرے ہوئے تھے اس وقت اس ماحول میں وہ اپنے آپ سے لڑ رہا تھا ، شام رخسار آ پی کے فون کے بعد سے وہ پریشان تھا اسے بھی بابا امی شاہ بی بی سب یاد آرہے تھے " کاش آپ سب نے میری بات سنی ہوتی !! مجھے اس سب پر مجبور نہیں کیا ہوتا " وہ بڑبڑایا اور پھر پوری رفتار سے دوڑنے لگا کافی دیر بعد صبح کا اجالا پھیلنے لگا تھا وہ ٹریک سے اتر کر پاس کھڑی مرسڈیز میں بیٹھا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا ٹھیک آٹھ بجے اسے اپنے آفس پہنچنا تھا ساڑھے سات بجے نک سک سے تیار کوٹ پینٹ میں ملبوس ٹائی لگائے وہ آفس جانے کیلئے تیار تھا بڑے سے اسٹائلش سے کچن میں آکر اس نے جہازی سائز فرج کھولا اور اورنج جوس نکال کر گلاس میں انڈیلا جوس پیتے ہی وہ آفس کیلیئے روانہ ہو گیا باہر اس کا ڈرائیور تیار کھڑا تھا ۔۔ بڑی سی شیشے کی طرح چمکتی ہوئی پرشکوہ عمارت کے مین اینٹرینس پر کالی سیاہ لشکارے مارتی ہوئی مرسڈیز آکر رکی باوردی ڈرائیور نے اتر کر مؤدبانہ انداز میں پچھلا دروازہ کھولا اپنے مغرور اکھٹر انداز میں آنکھوں پر سیاہ سن گلاسسز لگائے وہ نیچے اترا سامنے ہی کھڑی اس کی سیکریٹری جینی تیزی سے اس کی جانب آئی لپک کر اس کے ہاتھ سے بریف کیس تھاما.... "گڈ مارننگ باس !! " اس نے وش کیا وہ سر ہلاتا بڑے بڑے قدم اٹھاتا اندر کی طرف بڑھ گیا ریسیپشن سے لیکر لفٹ اور لفٹ سے اندر مین آفس تک سارا اسٹاف چاق وچوبند تھا وہ سب کے سلام پر سر ہلاتا ہوا اپنے کیبن میں چلا گیا ۔۔۔ ابھی وہ آکر بیٹھا ہی تھا کہ جینی ناک کرکے اندر داخل ہوئی "your black coffee boss...." وہ کافی کا مگ اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولی "اکاؤنٹ سیکشن انچارج کو بھیجو اور آج کے اپوائنٹمنٹ کی ڈیٹیل لسٹ لیکر آؤ ۔۔۔" "اوکے باس !! " وہ سر ہلاتی ٹک ٹک کرتی باہر نکل گئی سارے کاموں سے نبٹ کر اس نے ٹائم دیکھا تو گھڑی شام کے چار بجا رہی تھی اس نے اپنا فون اٹھایا ہی تھا کہ بیل رنگ ہونے لگی نمبر دیکھ کر اس کے منہ پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔ "کہا ہو تم !! مجھے لنچ پر بلا کر خود غائب ہو گئے میں کب سے اکیلی بیٹھی ہوئی ہوں !! شہریار تم ملو تو سہی ، نا تمہیں نانی یاد دلائی تو میرا نام بھی عروہ نہیں ۔۔ " وہ غصے سے بولی "عروہ ہنی !!سوری بےبی میں کام میں بہت بزی تھا بھول گیا کہ آج لنچ ڈیٹ تھی خیر ایسا کرو تم گھر آجاؤ میں تمہیں وہی ملتا ہوں ۔۔۔" وہ اٹھتا ہوا بولا " Mr Sheheryar !! you are a very proud and selfish stone heart man !! پتا نہیں کس گدھے نے مشورہ دیا تھا کہ میں تم جیسے پتھر سے دل لگا بیٹھی ۔۔۔" وہ تپ کر بولی " میں گھر جا رہا ہوں آنا ہو تو آ جانا !!" وہ اکھڑ لہجے میں بول کر فون بند کرکے کھڑا ہو گیا وہ گھر پہنچا ہی تھا کہ سامنے ہی سیڑھیوں پر منہ پھلائے عروہ کو دیکھ کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی "چلو اندر چلیں ۔۔ " وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے کھڑا کرتے ہوئے گویا ہوا عروہ بھی کوئی چوں چراں کئیے بغیر اس کے ساتھ گھر کے اندر چلی آئی " شہریار !! " لاؤنچ میں آکر وہ اس کے قریب آئی اور بڑے پیار سے اس کی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی " کیا ہوا ہے پریشان کیوں ہو ؟ " شہریار نے ایک نظر بغور نازک سی گلاب رنگت والی عروہ کو دیکھا " نہیں میں پریشان تو نہیں ہوں ویسے بھی جس کی زندگی میں تم ہو وہ پریشان کیوں ہوگا ۔۔ " وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا " اب زیادہ بناؤ نہیں ، چار سال سے تمہیں جانتی ہوں کھڑوس انسان!! اس لئیے فٹا فٹ شروع ہوجاؤ کیا بات ہے جو تمہیں پریشان کررہی ہے ۔۔۔" وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے صوفہ پر دھکا دیتے ہوئے بولی " میرے بابا ہاسپٹلائز ہیں !! شاید مجھے پاکستان جانا پڑے ۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا "Are you joking ?? دنیا بھر سے لوگ علاج کیلئے لندن آتے ہیں تم اپنے فادر کو ادھر بلوا لو ادھر علاج بھی اچھا ہوگا اور تم بھی اس تھرڈ ورلڈ کنٹری میں جانے سے بچ جاؤگے ۔۔" عروہ نے مشورہ دیا "اوکے میں چینج کرکے آتا ہوں تم تب تک ریسٹورنٹ سے ہوم ڈیلوری آرڈر کردو۔۔۔" وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کوٹ بازوؤں میں اٹھائے اپنے بیڈروم کی سمت چلا گیا اس کے دماغ میں ایک ہی بات گردش کررہی تھی کہ کیوں نا بابا کو وہ چارٹر پلین بھیج کر لندن بلوا لے !!! لیکن کیا بابا آجائیں گے ____________________________________ رات کا وقت تھا پھوپھا جی ، شاہ بی بی اور زاہدہ تائی شہر ہسپتال گئی ہوئی تھیں ۔۔۔ ملگجے سے قمیض شلوار میں ملبوس سویرا میز پر گرم گرم روٹیاں لا کر رکھ رہی تھی اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے لمبی گھنی چوٹی کمر پر جھول رہی تھی رخسار بڑے غور سے سویرا کو دیکھ رہی تھی جب فرزانہ پھپھو کی آواز پر چونک گئی ۔۔ " یہ کیسی روٹی بنائی ہے اور دیکھو سالن میں نمک بھی نہیں ہے !! شاہ بی بی نہ ہوں تو اس گھر میں کھانا بھی ڈھنگ کا نہیں ملتا ہے لوٹھا کی لوٹھا ہوگئی ہے مگر ڈھنگ سے کام کرنا نہیں آیا اس کرم جلی کو ۔۔۔" وہ زہریلے لہجے میں بولی "سوری پھپھو !! " سویرا دھیمے لہجے میں بولی "چل اب یہاں سے اپنی منحوس شکل گم کر !! بڑی آئی سوری پھپھو !! ارے تیری وجہ سے پانچ سال سے ہم سب شاہو کیلیئے تڑپ رہے ہیں میرے بھائی صاحب اپنے بیٹے کے غم میں ہسپتال پہنچ گئے اور یہ بی بی کہتی ہیں سوری پھپھو ۔۔۔" فرزانہ پھپھو نے اسے لتاڑا وہ خاموشی سے پلٹ کر اپنے کمرے کی جانب چلی گئی ۔۔۔ رخسار نے بہت دکھ سے اسے جاتے ہوئے دیکھا یہ جوائنٹ فیملی سسٹم تھا اس بڑی سی حویلی میں سب ایک ساتھ رہتے تھے رشتے ناطے بھی آپس میں ہی کئیے ہوئے تھے تاکہ خاندانی زمین جائیداد گھر سے باہر نہ جانے پائے شاہ بی بی اس گھر کی سربراہ تھی ان کے دو بیٹے سلیم ، فاروق اور ایک بیٹی فرزانہ تھی فرزانہ سب سے بڑی تھی جو اپنے تایا زاد سے بیاہی ہوئی تھی ان کے دو بیٹے تھے اکرم اور رمیز ۔ اکرم کی شادی انہوں نے رخسار سے کی سلیم جن کی شادی ان کی بھتیجی زاہدہ سے ہوئی تھی اور ان کی دو اولادیں ہوئیں بڑی بیٹی رخسار اور پھر اس سے چار سال چھوٹا سب کا راج دلارا شہریار۔ سب سے چھوٹے فاروق تھے نٹ کھٹ شرارتی سے انہوں نے خاندانی رسم و رواج سے بغاوت کرکے اپنی یونیورسٹی فیلو سے شادی کی جو سویرا کی پیدائش پر چل بسیں ، اپنی رفیق حیات کے گزر جانے کے بعد وہ خود کو ان کی یادوں سے نہیں نکال پائے اور وہ بن ماں کی معصوم بچی اسے زاہدہ تائی نے اپنے سینے سے لگا لیا وقت گزرتا گیا ۔۔۔ایک روز فاروق کو سینے میں درد سا محسوس ہوا پتہ چلا دل کے سارے والو بند ہیں انہیں سرجری کروانی تھی جس میں بچنے کے چانسز کم تھے ۔۔ وہ خوفزدہ تھے سویرا کو لیکر ان کی راتوں کی نیندیں اڑ گئی تھی تب شاہ بی بی اور سلیم صاحب نے تیرہ سالہ سویرا کا نکاح بیس سالہ شہریار سے کردیا ۔۔۔ شہریار ان دنوں ہائر ایجوکیشن کیلئے انگلینڈ جانے کی تیاری کررہا تھا وہ اس نکاح کیلئے وہ بھی ایک تیرہ سال کی بچی سے !! ہرگز راضی نہیں تھا مگر مجبور ہوگیا اور نکاح کے کچھ دن بعد چپ چاپ بنا بتائے حویلی چھوڑ گیا فاروق کو جب یہ سب پتہ چلا تو وہ برداشت نہیں کر پائے اور دل کا دورہ پڑنے سے انتقال فرما گئے ۔۔ ۔ __________________________________ رخسار اپنی پھپھو پلس ساس کے میز سے اٹھنے کے بعد ٹرے میں کھانا لئیے سویرا کے کمرے میں آئی ۔۔۔ "سویرا !! چلو شاباش اٹھو کھانا کھا لو ۔۔۔" انہوں نے اوندھے منہ آنسو بھاتی سویرا کو آواز لگائی " رخسار بجو !! آپ نے زحمت کیوں کی ۔۔۔" وہ شرمندہ سی اٹھ بیٹھی " بس بس ! اٹھو اور گرم گرم کھانا تناول کر کے مجھے خوش ہونے کا موقع فراہم کرو !! " وہ پیار سے بولی "قسم سے بجو !! مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔"سویرا ان کے ہاتھ تھام کر گویا ہوئی " من تو مارنا سیکھ ہی چکی ہوں اب بھوک بھی مارنا سیکھ لیا ہے کیا ؟ " رخسار نے سنجیدگی سے کہا " بجو ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔اچھا ناراض مت ہوں ایک آپ ہی تو ہیں جو میرا اتنا خیال رکھتی ہیں پیار کرتی ہیں ۔۔۔" "تو پھر میرا حکم مانو اور جلدی سے کھانا ختم کرو ۔۔۔" انہوں نے ٹرے کی طرف اشارہ کیا اور خود پانی لینے چلی گئی سویرا نے ابھی ٹرے سیدھی ہی کی تھی کہ ٹرے میں سائڈ پر رکھا رخسار بجو کا فون بجنے لگا اس نے فون اٹھایا "شہریار کالنگ " فون اس کے ہاتھ سے گر گیا _______________ رخسار کچن میں آ کر فریج میں سے دودھ نکال رہی تھی اسے اچھی طرح پتا تھا کہ سویرا کھانا نہیں کھائے گی اس نے بڑے اہتمام سے ایک گلاس بھر کر دودھ نکالا ساتھ ہی پانی کی بوتل نکال کر ٹرے میں رکھی ۔۔۔ " یہ اتنی رات گئے یہاں کیا ہو رہا ہے؟؟" فرزانہ پھوپو کی آواز گونجی رخسار کا ٹرے میں گلاس رکھتا ہاتھ لرز گیا "پھپھو !!! وہ سویرا نے کھانا نہیں کھایا تھا تو اس کے لئے دودھ لے جا رہی تھی ۔۔۔" وہ بوکھلا کر بولی " کوئی ضرورت نہیں ہے !! چلو میرے ساتھ صبح سے سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ، کبھی اپنی بوڑھی پھوپھو کی بھی خدمت کر لیا کرو سارا وقت اس منحوس لڑکی سے لگی رہتی ہوں ۔۔۔" فرزانہ نے اسے گھورا " پھپھو آپ چلیں میں بس ابھی دو منٹ میں آتی ہوں " وہ جلدی سے ٹرے اٹھا کر پلٹی "رخسار !!! ابھی کا مطلب ابھی !! یہ ٹرے واپس رکھو تم میری بہو ہو اس منحوس کی نوکرانی نہیں چلو میرے ساتھ !! " فرزانہ سختی سے بولیں رخسار نے افسردگی سے اپنے ہاتھ میں تھامی ٹرے کو دیکھا اور پھر اسے واپس میز پر رکھتے ہوئے بجھے بجھے قدموں سے باہر نکل گئی ______________________________ سویرا پھٹی پھٹی نظروں سے بیڈ پر گرے فون کو دیکھ رہی تھی جس پر شہریار کالنگ لکھا نظر آ رہا تھا فون ایک تواتر سے بجے جارہا تھا نہ جانے رخسار بجو کدھر رہ گئی تھی کچھ دیر بعد کمرے میں سناٹا سا چھا گیا فون بج بج کر بند ہو گیا تھا ۔۔ سویرا نے تیزی سے کھانے کی ٹرے اور فون کو اٹھا کر سائیڈ میز پر رکھا اور کمرے کی لائٹ بند کرکے سر تک لحاف تان کے لیٹ گئی وہ اس وقت رخسار یا کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا چاہ رہی تھی اتنے عرصے بعد شہریار کا نام دیکھ کر وہ لرز اٹھی تھی " یا اللہ میرے پیارے اللہ میری مشکل آسان کردے مجھے میرے بابا کے پاس بلالے ۔۔۔" " یا اللہ کیا دنیا میں یتیموں کو جینے کا کوئی حق نہیں ؟؟؟ ماں باپ چھین لئیے تھے تو مجھے کیوں زندہ رکھا ؟؟ " وہ روتے روتے اللہ سے شکوہ کرتے ہوئے نیند کی وادی میں اتر گئی۔ جاری ہے

Comments